Unfair And Lovely
ان فیئر اینڈ لولی
فیئر اینڈ لولی والوں نے اپنی کریم کا نام بدل کر گلو اینڈ لولی رکھ دیا ہے۔ اورحیات جاوداں سے خشمگین وبرانگیختہ کسی ناراض نوجوان کے طور مشتہر بھی کردیا ہے کہ آئندہ اسے نئے نام سے لکھا اور پکارا جائے۔ تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ امریکہ میں ہوئے نسلی فسادات کا اثر ہے۔ مایوس دقیانوسی فرماتے ہیں کہ امریکی بھی عجیب لوگ ہیں کہ ان کی آدھی سے زیادہ آبادی خود انفیئر ہے، مگر کسی کو فیئر کہنے پر برا مناتے ہیں۔ حالانکہ گوروں کو ٹین کرنا اور کالوں کو گورا کرنا بہ ایں ہمہ ایک "ان فیئر" کام ہے کہ کار قدرت میں مداخلت ہے۔ اس حساب سے تو اس کریم کا نام "ان فیئر اینڈ لولی" ہونا چاہیے تھا۔
ادھر یونی لیور والوں کی بھی سمجھ نہیں آتی۔ ایسا ٹیڑھا سا نام رکھ دیا۔ فیئر بھی اسم صفت ہے اور لولی بھی۔ گرامر کی رو سے بھی درست تھا اور سننے میں بھلا بھی لگتا تھا۔ اب یہ "گلو" فعل ہے اور "لولی" اسم صفت۔۔ ہر بار الجھن ہوتی ہے۔ اس سے کہیں بہتر تھا کہ۔"گلوئنگ اینڈ لولی"۔ ہوتا۔ انگریزی گرامر کی عزت رہ جاتی۔۔ مگر شاید مارکیٹنگ والوں کا گمان ہوگا کہ ترفیع حسن کی متمنی حسیناؤں کی طبع نازک پر یہ طوالت اسم گراں نہ ہو۔ مگر ہم حیران ہیں ان کے مارکیٹنگ والوں پر، سو سال میں نام رکھنا بھی نہ سیکھ سکے۔ سیدھا سیدھا "اسلامی رنگ گورا کرنے والی کریم" رکھا ہوتا۔ یا کم سے کم "حجاز مقدس کریم"۔۔۔۔ سادہ لوح، اسلام پسند خواتین قطار اندر قطار کھڑی ہوتیں۔
اور اس میں برا بھی کیا تھا، دیکھیں نا سانولی حسیناؤں کو گورا کرکے ان کی شادیاں کروانا عین اسلامی حرکت ہی تو ہے، ہےکہ نہیں۔ بہر حال انہیں گوروں کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ویسے گمان فاضل ہے کہ ہمارے اطباء وحکما نے بھی اپنے تئیں۔ کاو، قلفی کاسنی۔۔ سنڈ، کچور اجوائن، اور نیم، دھریک، چرائتہ وغیرہ سے مقدور بھر کوشش تو کی ہوگی رنگ گورا کرنے کی? مگر ناکامی پر نامعلوم شاعر کو بھاری معاوضہ پر "ساڈا کالا اے دلدارتے گوریاں نو پراں کرو"۔۔ لکھوا لیا ہوگا۔
ہم نے حکیم حاذق حکیم درمیانے علی خاں سے شکوہ کیا کہ بھئی آپ کی طب یونانی نے صنف نازک کے اسقدر اہم اور ہمہ گیر مسئلہ پر کوئی تحقیقاتی پیش رفت کیوں نہیں فرمائی۔۔ کہتے ہیں ہماری تحقیق ہزار سال سے صنف کرخت کے نازک مسائل سے نبرد آزما چلی آرہی ہے ادھر سے جب جان چھوٹے گی تب کسی اور طرف دھیان جائے گا۔
لیکن یہ گورے بھی نا۔ کمال لوگ ہیں جو ٹھان لیتے ہیں کر گذرتے ہیں شاید اس لیے کہ ان کی سوئی "عناصر اربعہ" اور "ازواج اربعہ" پر نہیں اٹکی ہوئی۔ آزاد روشن خیالوی کہتے ہیں اس کریم کا نام "افئیر اینڈ لولی" ہونا چاہیے تھا۔۔ کہ بھئی جب کوئی لولی ہوگا تو ہی افئیر چلے گا نا، جبکہ جمہور شادی شدگان کے مطابق اسے فیئر اینڈ لولی کی جگہ (fear and lovely) فییر اینڈ لولی ہونا چاہیے۔ اب یہ نہیں معلوم یہ فییر بیگم کا ہے یا "لولی" کیساتھ پکڑے جانے کا۔
قابل خرگوشوی کہتے ہیں رنگ گورا کرنے والی کریموں میں پہلے گورے پارہ یا پارہ کے مرکبات ڈالتے تھے جس سے بہت جلد، جلد کا رنگ بہتر ہوجاتا تھا۔ پھر انہوں نے جانا کہ یہ پارے کے مرکبات خطرناک جلدی امراض حتی کہ سرطان تک کا سبب بن سکتے ہیں تب سے انہوں نے ان پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اب آربیوٹین ایلفا اور بِیٹا اور کوجک ایسڈ جیسے بے ضرر نامیاتی مرکبات سے یہ کام لیا جاتا ہے مگر ان سے جلد کی رنگت میں ایک درجہ کی بہتری کم از کم بائیس دن میں ہوتی ہے۔
وطن عزیز میں مگر جہالت اور بے حسی کا راج ہے۔ اس لیے یہاں یہ پارہ اور اس کے مرکبات کا استعمال اب بھی جاری ہے۔ کہ اس سے بنی کریمیں جلد اثر دکھاتی ہیں۔ حالانکہ خواتین کو یہ بات سیکھ لینا چاہیے کہ مہ پارہ بننے کے لیے پارہ لگانا ہرگز ضروری نہیں۔ بس صرف یہ کہ ہفتہ، عشرہ صبر سے کام لیکر مستقل خرابیوں اور نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔