Tu Kada Engineer Aen
توں کادا انجینئر ایں؟

انجینئرنگ کے بعد ہم نے پہلا کام موٹرسائیکل کے پرزے بنانے کا شروع کیا تھا۔گاہے تھوک کی مارکیٹ میکلورڈ روڈ جانا ہوتا۔وہاں ایک مستری تھا رفیق نام کا، فیقا مستری کہلاتا تھا۔بڑا شہرہ تھا۔ہم بھی اپنے موٹرسائیکل کی مرمت اور دیکھ بھال اسی سے کروانے لگے۔کچھ عرصہ میں اسے معلوم ہوا کہ ہم انجینئر ہیں تو تھوڑی کم ٹوٹی کرسی پر بٹھاتا تھا اور پانی بھی پوچھ لیتا تھا۔ایک روز کسی موٹرسائیکل کے انجن کی گراریوں کی ترتیب لگاتے ہوئے ہمارے طرف دیکھ کر گویا ہوا۔ایہہ ویکھنا پائن میں گراریاں ٹھیک پرویاں نیں ۔
مینوں کی پتہ۔۔ ہم نے کندھےاچکائے۔
اسنے ایک تاریخی جملہ بولا جو آج تک سماعتوں اور یادداشتوں میں زندہ ہے۔فرمانے لگے۔
توں کادا انجینئر ایں؟
اس کے بعد بھی ہم نے یہ جملہ اپنے ستائیس سالہ عہد مہندسیہ میں درجنوں بار سنا۔لیکن سوائے زیرِ لب مسکرانے کے کوئی ردعمل نہیں دیا۔اور نہ ہی کبھی کسی کو یہ بتایا کہ انجینئرنگ کی درجنوں شاخیں ہوتی ہیں ۔اور ہر شاخ کا انجینئر اپنی شاخ کے متعلق بھی سارا علم نہیں رکھتا بلکہ اس کے کسی ایک حصہ کا ماہر ہوتا ہے۔بالکل ڈاکٹروں کی طرح کان ناک کا ماہر آنکھ کا آپریشن کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور دل کا ماہر دماغ کا۔وعلی ھذالقیاس۔
اور جس کام کے ہم ماہر نہیں ہمیں کوئی عار نہیں یہ بتانے میں ہم اس کام کے ماہر نہیں ۔یہ جو خوشحالی کی دستک کے کام ہیں ۔ہم نے دنیا کو کرتے دیکھا۔مشاہدہ کیا۔علم حاصل کیا۔اپنی لیب میں کچھ تجربات کیے۔اور ان کی بنیاد پر آپ سامنے مضامین رکھے۔ہم آپکو نہ ورغلاتے ہیں ۔نہ آپ سے پیسے مانگتے ہیں ۔نہ آپ کو مجبور کرتے ہیں کہ کسی کام کو ضرور کریں ۔ایک سرسری سا تعارف کرواتے ہیں ۔ایک طرح کی منزل کی نشاندہی ہے۔ہم آپکو بازو سے پکڑ کر منزل پر پہنچانے کا نہ دعویٰ کرتے ہیں ۔نہ ہمارے ذمہ ہے۔نہ ہم آپ کے سرپرست ہیں نہ ملک کے حاکم کہ ہم پر کوئی مجبوری ہو۔
جنہیں یہ لگتا ہے کہ یہ بڑی خدمت ہے۔ان کی بھی مہربانی اور جن کے خیال میں یہ ڈھکوسلا ہے، فراڈ ہے ان پر بھی اللہ کی رحمتیں ہوں ۔آپ جہاز، لیپ ٹاپ بنائیں یا اوپلے تھاپیں، اپنے لیے کریں گے۔ہماری تو صرف یہ آرزو ہے کہ سوچنا اور تجزیہ کرنا شروع کریں ۔دنیا میں دیکھیں کیا ہورہا ہے۔نئے ٹرینڈز کیا ہیں ۔ان کا تجزیہ کریں ۔انکا علم اور تجربہ حاصل کریں ۔ایک کام اگر بیس ملکوں میں کامیابی سے ہورہا ہے تو یہاں ناممکن کیونکر ہوگیا۔فراڈ کیسے ہوگیا۔فراڈ کام نہیں اس شخص نے کیا ہوگا جس سے آپکا پالا پڑا۔فراڈ آپ کے ساتھ نظام نے کیا ہے جس نے آپکو ہنر سکھانے کی بجائے زبانیں سکھادیں ۔ظلم آپ نے خود کے ساتھ کیا ہوگا جو سیکھے بغیر ایک بہت ٹیکنیکل کام میں کود پڑیں ہوں گے۔اور نقصان کر بیٹھے۔
دھوکہ کام میں نہیں ہمارے دماغوں میں ہے جو راتوں رات امیر ہونا چاہتے ہیں ۔حالانکہ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ۔دنیا بھر میں جو لوگ نئے کام سیکھتے اور کرتے ہیں ان کی الہامی کتابوں میں نہیں اترتے۔محنت اور ریاضت سے سیکھتے ہیں پھر کرتے ہیں ۔نااہل لوگ تو پھل کی ریڑھی، دہی بھلے کے ٹھیلے پر نقصان کرلیتے ہیں ۔لوگوں کو الزام دینے کی بجائے ہمیں اپنا تجزیہ کرنا چاہیے۔اگر ہمارے راولپنڈی کی بسوں والے لالہ موسیٰ سواریاں نہ بیچتے ہوتے تو اس ملک میں ڈائیوو کو اس قدر پذیرائی نہ ملتی۔اگر رکشوں ٹیکسیوں والے کے رویے پروفیشنل ہوتے اوبر کریم اتنی کامیاب نہ ہوتیں ۔
ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ۔ناامید ہونے کی کوئی ایک بھی ٹھوس وجہ نہیں ۔بس کمی ہے تو مثبت سوچ اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی۔ایک دوسرے کا سہارا بننے کی۔اگر کانٹے چننے کا حوصلہ نہیں تو کم از کم کانٹے بکھیرنا تو بند کردیں ۔اگر دست وبازو نہیں بن سکتے تو ٹانگیں کھینچنا تو ترک کردیں ۔اگر حرف خوشکن نہیں بول سکتے تو دل آزاری بھی نہ کریں ۔انشاءاللہ ہم سرخرو ہوں گے۔اللہ کے فضل سے وہ وقت دور نہیں جب ہم خوشحال ہوں گے۔ہر طرف آسودگی ہوگی ہر چہرے پر طمانیت ہوگی۔

