To Chalein Turkey (15)
تو چلیں ترکی؟ (15)
کھانے کے بعد سب سے پہلے تو بحری میزبانوں نے مشروب مغرب کی بوتلیں اور جام لا کر ہر ہر میز پر سجا دیئے۔ ہماری پچھلی اور اگلی نشستوں پر زیادہ تر گورے ہی براجمان تھے۔ جنہوں نے ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر ڈھکن کھول دیے۔ ہماری میز پر ہمارے علاوہ جو لوگ تھے ان کو ڈبل ڈوز ملنے والے تھی کیونکہ ہمارے حصہ میں آئی سرخ مشروب کی چمچماتی بوتل بھی ان کو دی جا چکی تھی۔ کچھ وقت ہم منتظر رہے کہ سمے کے سیما سے تفریح کا کونسا روپ برآمد ہوتا ہے۔
چند منٹ بعد آٹھ دس لوگ ہال میں داخل ہوئے ڈھیلا ڈھالا سفید کرتا پاجامہ زیب تن کر رکھا تھا۔ سر پر گیروی رومی ٹوپی۔ بالکل وہی روپ جو کونیاں کے صوفی درویشوں کا آپ نے ویڈیوز میں دیکھا ہوگا۔ انہوں نے دنوں اطراف میزوں کی درمیانی جگہ پر اپنا گول گول گھومنے والا روایتی صوفی رقص پیش کرنا شروع کردیا۔ ساتھ ہی کچھ سازندے مقامی دھن بجانا شروع ہوگئے۔ ہمیں رقص و موسیقی سے چنداں رغبت نہیں تاہم ادبی لحاظ سے مضبوط کلام اور بہت زیادہ ردھم میں موسیقی ضرور بھاتی ہے۔ لیکن یہاں معاملہ مختلف تھا۔ یہ تاریخی حوالہ اور علاقائی شناخت لیے تھا سو دلچسپ لگا۔
ان کے کچھ دیر بعد ایک جوڑی آگئی۔ اس میں ایک صاحب قریب آٹھ فٹ قد کے تھے چہرے پر جوکر والا ماسک اور ایک خاتون چار فٹ کی، جس نے گلابی رنگ کا گھاگھرا پہن رکھا تھا۔ دس فٹ والے صاحب کا اصل قد تو عام لوگوں سا ہی ہوگا مگر انہوں نے غالباً دو فٹ لمبی لکڑی کی ٹانگیں لگا رکھی تھیں۔ ان اضافی ٹانگوں کے باوجود اس نے بڑی سرعت سے مختلف انداز میں رقص کیا۔
ان دونوں کی بیشتر حرکات ایسی تھیں کہ لوگوں کو ہنسی آئے۔ مثال کے طور پر خاتون کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اس کے محور پر بھی گھماتا تھا اور اپنے گرد بھی بالکل جیسے زمین سورج کے گرد گھومتی۔ لیکن درمیان درمیان میں وہ رک جاتی اور یہ اس کو دوسری جگہ احمقانہ انداز سے تلاش کرتا۔ اسی طرح اس کو گھماتے گھماتے دھکا دیتا اور گرنے لگتی۔ عین وقت پر اس کو تھام لیتا، سب لوگ ہنستے بھی اور تالیاں بجا کر داد بھی دیتے۔ پندرہ بیس منٹ انہوں نے اپنے انداز میں حاضرین کو محضوض کیا۔
ان کے بعد آئی اس کی باری غالباً جس کے لیے یہ سای محفل سجائی گئی تھی۔ جی "پیٹ رقص" مطلب وہی بیلی ڈانس۔ ایک انتہائی خوبصورت، سرو قد، سڈول جسم جواں سال حسینہ جس کی تعریف میں تقریباً وہ سب کچھ کہا جا سکتا ہے جو ہمارے برصغیر کے شعراء نے اپنی اپنی تخیلاتی محبوباؤں کے لیے عالم ہوش یا مدہوشی میں کہہ رکھا ہے۔ کہیں سے نمودار ہوئی۔
اس نے سبز رنگ کی دبیز مگر ریشمی پوشاک پہن رکھی تھی جس پر نقرئی اور طلائی دھاگوں سے بھاری کام کیا گیا تھا۔ لیکن اس پوشاک کی ہئیت بالکل شیروانی سی تھی کہ گلے سے دامن تک چاک۔ آتے ہی اس نے ایک ادائے دلبرانہ سے ہال کا گول سا چکر لگایا۔ سب کی طرف دیکھ دیکھ کر ہاتھ ہلایا لوگوں نے تحسین و تحریک کا ایک شور سا بلند کیا جس کے جواب میں اس نے درجن بھر ہوائی بوسے ہر طرف اچھال دیے۔
شور تھما اور رقاصہ بھی۔ پھر اس نے یکایک اپنی ریشمی پوشاک کے سامنے کی طرف کے کچھ بندھن کھولے اور پلک جھپکتے میں خود کو اس سے آزاد کر لیا۔ اندر سے اختصارالباسی کے آخری درجہ پر فائز چاند کی روشنی سا کچھ برآمد ہوا جس نے یکایک بے طرح تھرکنا اور ہال کے سفید چوبی فرش پر بہنا شروع کردیا۔ سب کچھ اتنا اچانک تھا کہ جیسے بجلی کوندی ہو اور ہم چار بدیسی غیر مستند شرفا کسی قسم کا کوئی ردعمل دیے بنا کئی ثانیے بس دیکھا ہی کیے۔
ہماری ایک رشتہ دار خاتون تھیں بہت پارسا۔ پرانی بات ہے جب صرف پی ٹی وی اور دوردرشن ہوا کرتے تھے۔ ان کے گھر یوں تو دوردرشن پر سخت پابندی عائد تھی مگر کوئی باغی جوان گر چوری چھپے کمرے میں چترہار دیکھ رہا ہوتا اور وہ اچانک وارد ہو جاتیں تو اس کو چینل بدلنے سے یہ کہہ کر روک دیتیں۔ "اچھا ٹھہر ویکھن دے خنزیرنیاں کردیاں کی نیں" بس ہم بھی پارسا سے ہو کر کچھ دیر یہی کرتے رہے کہ اچھا دیکھ تو سہی یار یہ کمبخت کرتی کیا ہے۔ اور وہ جو کررہی تھی انسانی نفسیات اور حسیات کو بے طرح متاثر کرنے کا فن تھا اور اسے اپنے اس فن پر کمال حاصل تھا۔
دس منٹ میں ہم اس رقص کے متعلق بیشتر "فرسٹ ہینڈ نالج" لے چکے تھے۔ اب جی پر ناگوار سا بوجھ محسوس ہورہا تھا۔ ہم راہیوں سے کہا ہم عاجز ہوئے آپ چاہیں تو جاری رکھیں ہم اوپر جاتے ہیں۔ لیکن ان دوستوں نے بھی ہمارے ساتھ جانا ہی مناسب جانا۔ ہم سب نشستوں سے اٹھ کر ہال کے درمیان سے چلتے ہوئے سامنے کیبن کے ساتھ بنی سیڑھیاں چڑھ کر عرشے پر آگئے۔ عرشے پر بہت ہی خوب صورت نظارہ تھا۔ کروز بالکل آہستہ سے سطح آب پر چل رہا تھا۔ دائیں بائیں آگے پیچھے ایسے درجنوں کروز اور بھی نظر آ رہے تھے۔ یقیناً سب پر یہی محافل خرافات جاری تھیں۔