Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. To Chalein Turkey (13)

To Chalein Turkey (13)

تو چلیں ترکی؟ (13)

ڈائیپر بنانے والی فیکٹری نمائش سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر تھی اور گوجرانوالہ والے صاحب آسانی کے لیے ان کا نام ہم بھولا بھائی رکھ لیتے ہیں، کا خیال تھا کہ ہمیں وہاں پانچ بجے سے پہلے پہنچنا چاہیے تاکہ فیکٹری کو چالو حالت میں دیکھ لیں۔ ہم چار بجے نکلے تھے۔ نمائش گاہ سے دس منٹ کی پیدل دوری پر میٹرو بس سٹیشن تھا۔ اور گوگل کے مطابق میٹرو بس کے تیسرے سٹاپ سے دس منٹ کی پیدل دوری پر ڈائپرز فیکٹری تھی۔ لیکن بھولا بھائی نے ٹیکسی کے استعمال کو ترجیح دی جس کی سب بڑی وجہ تو ظاہر ہے کہ وہ شیخ نہیں تھے۔ اور دوسری یہ کہ وقت بچانا مقصود تھا۔

مگر ہوا الٹا۔ ٹیکسی بڑی سڑک پر آتے جیسے گاڑیوں کی قطار میں لگ گئی۔ اتنا رش۔ سمجھ لیں کہ جہاں سے ہم مرکزی شاہراہ پر داخل ہوئے تھے وہاں سے مذکورہ فیکٹری تک گاڑیوں کی قطار لگی ہوئی تھی اور ہم اس قطار میں سب سے آخر پر تھے۔ جبکہ سڑک کے بیچوں بیچ جنگلہ بس آس پاس کے ہجوم سے بے نیاز اپنی پوری رفتار سے گامزن تھی۔ ہمیں لاہور میں جنگلہ بس کے مخالفین کا وہ نعرہ "ایک بس اور باقی سب بے بس" یہاں بڑی شدت سے یاد آیا۔

مگر ساتھ ہی یہ سیکھ بھی ملی کہ استنبول میں پبلک ٹرانسپورٹ ہی سفر کا سب سے سریع ذریعہ ہے۔ بلکہ استنبول ہی کیا ہر وہ گنجان آباد شہر جہاں عالمی معیار کی پبلک ٹرانسپورٹ موجود ہو، پبلک ٹرانسپورٹ پر ہی سفر کرنا چاہیے۔ بہرحال اب ہم ٹریفک کے ازدحام میں پھنس چکے تھے۔ سو صبروشکیب کے سوا چارہ نہ تھا۔ چھ سات کلومیٹر کا راستہ گھنٹہ بھر میں کٹا ہوگا۔ فیکٹری کے مالک نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔

تعارف کے بعد اس نے اپنی مصنوعات کی ڈھیر ساری خصوصیات بیان کیں۔ جس میں ایک سب سے اہم خاصیت اس کی پانی جذب کرنے کی صلاحیت تھی۔ اس کی اس نے عملی مشق کرکے دکھائی۔ ڈائپرز کے اندر جو روئی سی لگی ہوتی ہے اصل میں وہ بہت سا پانی زیادہ جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ بلکہ ہر ڈائپر میں قلیل مقدار میں ایک کیمیائی مرکب سوڈیم پولی ایکرائلیٹ sodium polyacrylate کا پاؤڈر ڈالا جاتا ہے۔ اسے عرف عام میں سپر ابزاربنٹ پولیمر super absorbent polymer یا SAP بھی کہتے ہیں۔

بھائی صاحب نے دو ڈسپوزیبل گلاس لیے۔ ان میں ایک ایک چمچ دو طرح کے SAP ڈالے۔ اور دونوں میں برابر مقدار میں پانی ڈال دیا۔ کچھ ہی لمحوں میں ایک پاوڈر پھول کر گلاس کے کناروں تک آگیا اور اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں بچا۔ جب کہ دوسرے گلاس کی تہہ میں تھوڑا سا پانی بچا رہا۔ اسی طرح اول الذکر دیکھنے میں اور چھونے میں خشک محسوس ہوا جبکہ ثانی الذکر دیکھنے اور چھونے میں گیلا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ جو اعلیٰ معیار کا SAP ہے وہ کسی یورپین ملک سے درآمد کیا جاتا ہے جبکہ کمتر معیار والا چینی ساختہ ہے۔

اور بقول ان کے وہ یورپین SAP اپنے ڈائپرز میں استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ڈائپرز بہت ہی اچھے ہوتے ہیں اگرچہ قیمت میں مقابلتاََ قدرے مہنگے۔ اس مشق کے بعد ہم نے فیکٹری کا دورہ کیا۔ ڈائپرز بنانے کی مشین تیس چالیس فٹ لمبی پانچ چھ فٹ چوڑی ہوتی ہے۔ جس کے ایک سرے پر پلاسٹک اور روئی کے رولز لگے ہوتے ہیں۔ اور تمام اشیاء آگے کی طرف چلتے ہوئے مرحلہ وار اپنی مطلوبہ ترتیب سے جڑتی جاتی ہیں۔ آخر میں پہنچنے تک مکمل ڈائپر تیار ہوا ہوتا ہے جسے ساتھ ہی ڈبوں میں پیک کرتے جاتے ہیں۔

مشین بالتفصیل دیکھنے کے بعد جب ہم دوبارہ دفتر میں آکر بیٹھے تو فیکٹری مالک کو ہماری آپس کی گفتگو اور دیکھنے کے اطوار سے کچھ شک سا ہوا کہ ہم ٹیکنیکل لوگ ہیں۔ اس نے بیٹھتے ہی اس بابت پوچھا اور جب ہم نے بتایا کہ ہم دو فل فرائی اور ایک ہاف فرائی انجینئر ہیں تو اس نے باقاعدہ سر پر ہاتھ مار کر تاسف کا اظہار کیا کہ یہ میں کیا کر بیٹھا۔ اپنی اتنی زبردست اور قیمتی مشین انجینرز کو دکھا دی۔ کہتا آپ کو پہلے بتانا چاہیے تھا کہ آپ انجینئرز ہو، میں تو آپ کو شریف آدمی سمجھ کر فیکٹری دکھا بیٹھا۔

لو کرلو گل۔ مطلب انجینئرز بیچارے شریف آدمی ہی نہیں ہوتے۔ قصہ کوتاہ ہم نے اس کو تسلی دی کہ ہم واقعی شریف آدمی ہیں اور تمہاری مشین کی نقل تیار کرنے کی نیت ہرگز نہیں رکھتے۔ لیکن چونکہ اب تک شرافت کی سرٹیفکیشن دنیا کے کسی بھی ادارے نے شروع نہیں کی سو ہم اس کا سرٹیفکیٹ بہرحال نہیں رکھتے۔ ویسے گمان فاضل ہے کہ اس طرح کی کوئی سرٹیفکیشن اگر کبھی کہیں شروع ہوئی تو سب سے زیادہ جعلی سرٹیفکیٹ یہی والے بنیں گے۔

(جاری ہے)

Check Also

Kahaniyan Zindagi Ki

By Mahmood Fiaz