To Chalein Turkey (11)
تو چلیں ترکی؟ (11)
انسان جتنا بھی پراعتماد ہو، چاہے آدھی دنیا دیکھ رکھی، ایک جیون میں دو چار زندگیاں جی لی ہوں، بھلے اپنی ذات میں انجمن چھوڑ سلطان راہی ہو پھر بھی سیاحت کا لطف ہم خیالوں کی سنگت میں ہی آتا ہے۔ گو ہم یہاں آٹومیکینکا میں سیاحت سے زیادہ کاروباری امور نمٹا رہے تھے، پھر بھی بہت جلد جی اوب گیا سو ہم نے آج کا دورہ مختصر کرکے کل دوستوں کے سنگ ہی آنے کا فیصلہ کیا۔ نمائش کے باہر ایک بڑے سے تنبو نما خیمے میں کھانے کے بہت سے سٹال لگے تھے۔ اور سب پر ہی بہت زیادہ رش تھا۔ چونکہ مہمانوں کی کثیر تعداد بیرون ملک سے آنے کی توقع تھی سو یہاں زیادہ تر انگریزی کھانوں اور مشروبات کا اہتمام تھا۔ ہم بھی وہیں کسی سٹال میں خالی نشست تلاش کرکے تشریف فرما ہوگئے۔
لاہور سے یوں تو بیس تیس لوگوں کا وفد اس نمائش کے لئے آ رہا تھا مگر ہمارے دوست ان میں سے دو تھے۔ جن کی فیکٹریاں داروغہ والا میں ہماری فیکٹری کے قریب ہی واقع ہیں۔ اور ان دونوں نے آج سہ پہر استنبول پہنچنا تھا۔ ان دو حضرات میں سے ایک شیخ صاحب ہیں جن کا تفصیلی تعارف ایران کی سیر کے دوران کروایا جائے گا۔ مگر یہاں بس آپ تھوڑا سا جان لیں کہ جس طرح گڈ، بیٹر بیسٹ، یا ہارڈ، ہارڈر اور ہارڈسٹ ہوتا ہے اسی طرح اگر شیخ، شیخر اور شیخسٹ ہوتا تو وہ شیخسٹ تھے۔
اگر آپ نہیں سمجھیں تو یوں سمجھ لیں کہ اگر لاہور سے ترکی پیدل آنے کا چلن ہوتا اور اس میں بذریعہ جہاز سفر کی نسبت دس روپے کم خرچ ہوتے تو وہ پیدل جانا پسند کرتے۔ جب کہ دوسرے دوست ایک عام انسان تھے جیسا کہ سب لوگ ہوتے ہیں مطلب بوقت ضرورت پیسے خرچ کر لینے والے۔ ان دونوں دوستوں نے چار پانچ روز استنبول میں قیام کرنا تھا پھر ان کا پروگرام یورپ جانے کا تھا۔ اور ہم نے یہ طے کر رکھا تھا کہ جتنے روز وہ یہاں رہیں گے ہم ان کے ساتھ ہوٹل میں رہیں گے۔
اب ہمارا خیال یہ تھا کہ جب تک وہ دونوں حضرات ہمیں ایئرپورٹ پر پہنچ کر کال نہیں کرتے ہم یہیں بیٹھے رہیں۔ لہٰذا ہم کھانا بالکل آہستہ آہستہ کھا رہے تھے۔ لیکن یقین کریں کہ اس دن ہمیں وطن عزیز کی زبوں حالی کی وجوہات کا ادراک حق الیقین تک ہوگیا جب ہم نے یہ دیکھا کہ کسی بھی چیز کو چاہے جتنا بھی آہستہ آہستہ کھائیں بالآخر وہ ختم ہوجاتی ہے۔ اب وہاں کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ ہم اٹھے اور جنگلہ بس سے ہوتے ہوئے دوست کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔
تین، چار، پانچ، چھ بج گئے شیخ صاحب کی کال نہیں آئی۔ ہم متفکر ہو رہے۔ سات بجے کے قریب میسنجر پر ان کا پیغام موصول ہوا کہ اپنا مقامی نمبر دیں۔ نمبر دیا تو کال آئی۔ فرمایا آپ کا نمبر گم ہوگیا تھا سو رابطہ نہیں کر پائے۔ بھائی سینسدان جو اب میسنجر پر پوچھا تو پہلے پوچھ لیتے۔ کہتے ذہن میں ہی اب آیا۔ خیر اب ہم نے ان سے ایڈریس پوچھا۔ بوریا بستر گول کیا، حسنین، نعیم صاحب اور اویا سے اجازت چاہی اور نکل پڑے۔ حسنین صاحب کا اصرار تھا کہ ہم دوستوں کے ساتھ اگلے روز رات کا کھانا ان کے ساتھ کھائیں۔ ہم نے ان کی دعوت مشروط طور پر قبول کرلی کہ اگر دوستوں کا کچھ ہنگامہ پہلے سے طے شدہ نہیں ہوا تو ضرور ان کو لیکر کل شام حاضر ہوں گے۔
تین چار روز سے استنبول میں پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے کی وجہ سے ہمارا اعتماد تو قصر سلطانی کے گنبد پر تھا، نیز ہم نے گوگل سے یہاں کی میٹرو ٹرینز اور بسوں کے سب روٹس بھی ڈاؤنلوڈ کر رکھے تھے تو خیال تھا کہ باآسانی شیخ صاحب کے منتخب کردہ ہوٹل پہنچ جائیں گے۔ ایک بس ایک ٹرین اور دس منٹ کے پیدل مارچ سے بالآخر ہم نے دوستوں جا لیا۔ اور پانچ منٹ کی مزید واک کے بعد ہم ایک پرانے سے محلے میں داخل ہوگئے۔
یہ سلطان سلمان کی نیلی مسجد سے کچھ فاصلے پر پرانے شہر کی ایک تنگ و تاریک گلی میں ایک چھوٹی سی پرانی عمارت تھی۔ جس کے نچلے حصے کو ایک عمر رسیدہ خاتون نے اپنے گذر اوقات کے لیے سیاحوں کی رہائش کے کمروں میں تبدیل کر رکھا تھا جبکہ اوپر خود رہائش پذیر تھی۔ اس وقت جب شہر بھر کے کسی بھی ہوٹل کا کوئی کمرہ ایک دن کے لیے ساٹھ یورو سے کم کرایہ پر نہیں ملتا تھا شیخ صاحب نے کسی ویب سائٹ سے یہ اکیس یورو فی دن کے حساب سے بک کیا تھا اور اکیس یورو میں تین افراد کا ناشتہ بھی شامل تھا۔