Tarjeehat
ترجیحات
نہیں معلوم یہ وطن عزیز میں سرکار کی طرف سے عوام کو مفت اشیاء دینے میں کیا حکمت ہوتی ہے۔ خاص طور پر جب مسلم لیگ کی حکومت آتی ہے۔ پہلے انہوں نے اربوں روپے کے لیپ ٹاپ تقسیم کیے اور اب آٹے پر زور ہے۔ نہیں معلوم اس طریقے سے اشیاء بانٹنے میں کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ لیپ ٹاپ سکیم کی بابت بھی ہم نے عرض کیا تھا جتنے کے لیپ ٹاپ درآمد کیے گئے اتنے میں لیپ ٹاپ بنانے کی فیکٹری لگا کر مقامی طور پر اتنے ہی لیپ ٹاپ بنائے جا سکتے تھے فیکٹری بونس میں بچ جاتی جو بالواسطہ اور بلاواسطہ ہزاروں ہنرمندوں کے مستقل روزگار کا ذریعہ ہوتی اور اب تک ہم اربوں کا زرمبادلہ بھی بچا چکے ہوتے۔
اب تینتالیس ارب روپے کا آٹا مفت دیے جانے کا پروگرام ہے۔ جس میں بدانتظامی کے باعث اب تک دس جانیں جا چکی ہیں اور درجنوں لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔ وطن عزیز میں تن آسانی نے پہلے جمہور کا بیڑا غرق کر رکھا ہے اس پر مفت کی اشیاء کی فراہمی سے سستی پر مبنی یہ رویہ اب بڑھتے ہوئے لوٹ مار تک جا پہنچا ہے۔ جہاں بھی مفت اشیاء کی فراہمی کا اہتمام ہوتا ہے لوٹ مار شروع ہو جاتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہی وسائل لوگوں کو روزگار کے حصول کے قابل بنانے پر صرف کیے جائے۔ کسی گھرانے کو پانچ ہزار کا آٹا دینے کی بجائے اس کے کسی ایک فرد کو اسی رقم کی تصریف سے کوئی ہنر سکھا دیا جائے جس سے وہ مستقل کمانے کے قابل ہو سکے۔
ہم پہلے بھی عرض کر چکے کہ چین کے صوبے سنجیانگ میں ٹماٹروں کے سوا کوئی خاص پیداوار نہیں ہوتی تھی۔ دور دراز واقع ہونے اور پہاڑوں میں گھرے ہونے کی وجہ سے ٹماٹر چین باقی علاقوں تک نہیں پہنچائے جا سکتے تھے نتیجہ مقامی لوگوں کو ان کی محنت کا معقول معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ سرکار نے اس علاقے میں دنیا کی سب سے بڑی ٹماٹر پراسس کرنے کی فیکٹری لگا دی جس کی استعداد دس ہزار ٹن روزانہ ہے۔
اب نہ صرف کہ سارے علاقے کے کسانوں کے ٹماٹر اس فیکٹری میں کھپ جاتے ہیں بلکہ چین ہی نہیں دنیا بھر کو یہاں سے ٹماٹروں کی پیسٹ اور کیچپ درآمد کی جاتی ہے۔ سندھ کے علاقے بدین میں بھی ٹماٹروں کی پیداوار بہت ہی زیادہ ہوتی ہے۔ ہم ان تینتالیس ارب روپے سے دسواں حصہ خرچ کرکے اس علاقے میں ایسی ایک فیکٹری لگا دیں۔ نہ صرف پورے علاقے کے کاشتکار خوشحال ہو جائیں گے کروڑوں کا زرمبادلہ جو ٹماٹروں کی پیوری اور خشک ٹماٹروں کی درآمد پر خرچ ہوتا ہے بچ رہے گا۔ ہزاروں لوگوں کو روزگار الگ سے ملے گا۔
ایسے ہی بیسیوں دیگر منصوبہ جات ہیں جو اگر لگائیں جائیں تو ہم اپنے زرعی، اور معدنی خام مال کو جو کوڑیوں کے بھاؤ بیچتے ہیں پراسس کرکے مہنگی، بیش قدر اشیاء تیار کر سکتے ہیں۔ دکھاوے کے ڈنگ ٹپاؤ اقدامات کی بجائے ایسے ٹھوس منصوبہ جات سے مستقل بنیادوں پر خوشحالی لائی جا سکتی ہے، مگر۔
شاید ہمارے نام نہاد آقاؤں کو بھیک مانگتے، ہاتھ جوڑتے قطاروں میں لگے روتے بلکتے بے بس نفوس زیادہ اچھے لگتے ہیں۔