Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Sanu Ki

Sanu Ki

سانوں کی

شنگھائی سے قریب سو کلومیٹر مغرب میں چین کا غالباً سب سے ترقی یافتہ شہر سُوجَو Suzhou آباد ہے۔ یہ تاریخی شہر صدیوں پرانی تہذیب کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی جدید ترین صنعت کا مرکز بھی ہے۔ ایپل، آئی بی ایم سامسنگ اور بہت سے مشہور زمانہ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور موبائل فون بنانے والی بیشتر فیکٹریاں یہیں ہیں۔

ٹیکنالوجی کے علاوہ اس شہر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں تین بڑی جھیلیں ہیں اور پانی کی اس قدر فراوانی ہے۔ ایک سڑک کے بعد ایک نہر ہے۔ پھر سڑک اور پھر نہر۔ گویا بیشتر عمارات کے ایک طرف کارپورچ اور دوسری طرف کشتی گھاٹ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اسے لوگ ایشیائی وینس بھی کہتے ہیں۔

ہماری مقامی میزبان اور گائیڈ جو اتفاق سے اس شہر کی پولیس چیف بھی تھیں انہوں نے سیر کے دوران ایک سڑک پر گاڑی روکی۔ اس سڑک پر تاحد نگاہ درجنوں کی تعداد میں مساج پارلر بنے تھے۔ انہوں نے ہمیں یہ بتا کر حیران کردیا کہ ان تمام پارلرز میں مساج کرنے والے خواتین وحضرات سب کے سب نابینا ہیں۔ یہاں صدیوں سے یہ ریت چلی آرہی ہے کہ سب نابینا ؤں کو مساج سکھا دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ ایسا کام ہے جو بینائی کے بغیر بہترین ہوسکتا ہے اور ان کا نظام حیات اس سے بہترین اور باعزت طور پر چلتا رہتا ہے۔

ہم سوچتے ہیں کہ ذرا سی حکمت سے انسانی معاشروں میں کیسے بڑے بڑے مسائل کا مستقل حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف ہم جب روزانہ شام اپنے شہر کی سڑکوں پر ٹرانس جینڈرز کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھتے ہیں تو جی بہت کڑھتا ہے۔ کہ صدیوں سے اس خطہ میں دانائی اس قدر مفقود رہی کہ ہم ان کیلئے معاشرہ میں کوئی فعال کردار یا باعزت روزگار کا بندوبست ہی نہیں کرسکے۔

ذرا سا غور کریں تو کس قدر آسان لگتا ہے کہ ہم آپ روز مرہ زندگی کا کوئی ایک پیشہ ترجیحی بنیادوں پر ان کیلئے وقف کردیں۔ مثال کے طور درزیوں کا پیشہ۔ میرے خیال میں ان کیلئے بڑے سکولوں میں علیحدہ کلاسز ہوں جہاں مڈل تک تعلیم کے دوران انہیں روایتی تعلیم کے ساتھ ان کی جسمانی ساخت اور لوگوں کے غیرمتوقع و ناپسندیدہ رویوں سے نبردآزما ہونا بطور خاص سکھایا جائے۔ مڈل کے بعد انہیں دوسالہ فیشن ڈیزائننگ کا کورس کروا دیا جائے اور اس کے بعد کسی بڑے فیشن ہاوس میں ملازمت کرلیں یا انتہائی قلیل سرمایہ سے کسی گلی محلہ میں اپنی دوکان بنالیں۔

مردوں کو شاید کوئی مسئلہ ہوگا ہی نہیں، خواتین جو مرد درزیوں سے کپڑے سلوا سکتی ہیں تو ان سے تو ان کیلئے معاملہ کرنا اور بھی سہل ہوگا۔ معاشرہ اگر ذرا سی دلچسپی لے تو اس عضو معطل کو کارآمد بنایا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر ہمارا قومہ رویہ تو ہے ہی۔۔"سانوں کی "

Check Also

Aik He Baar

By Javed Chaudhry