Saarhe Saat Qatal
ساڑھے سات قتل
انسانوں کا اسقدر بڑا اجتماع اس نے آج پہلی بار دیکھا تھا۔ اولادِ آدم کا اتنا ہجوم اللہ کی پناہ، حدِ نگاہ لوگ ہی لوگ، سر ہی سر۔ یہ میں کہاں ہوں اس نے گھبرا کر سوچا۔ کچھ دیر بعد جب اوسان بحال ہوئے تو ارد گرد کا جائزہ لینے لگا۔ ہزاروں لاکھوں لوگوں میں ایک بھی شناسا ایک بھی اپنا دکھائی نہ دیا۔
میں کہاں ہوں، کیا ہورہا ہے یہاں، اس بار وہ بلند آواز سے پکارا۔ لیکن جیسے کسی نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ تب اس نے غور کیا۔ ارے یہ کیا یہ تو سب کے سب غیر ملکی ہیں۔ کوئی گورا کوئی کالا، کوئی عربی۔۔ جبھی تو کوئی اس کی بات سمجھ ہی نہیں پایا تو جواب کیسا۔ یکا یک اس کو سخت گرمی کے احساس نے آلیا۔ اس نے آسمان پر نگاہ ڈالی اور ایک لمبی سانس لی۔
اب اس کو پیاس بھی محسوس ہونا شروع ہوگئی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا کہ کہیں کوئی ٹھیلا یا ریڑھی نظر آئے جہاں سے وہ پیاس بجھانے کا سامان کر سکے، لیکن اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اسے حدِ نگاہ ایسا کچھ بھی دکھائی نہ دیا، وہ اور بھی گھبرا گیا۔ دفعتاً اس کی نظر اپنے گلے میں پڑے سفید ربن پر پڑی جس کے آخری سرے پر ایک بیج تھا جس پر درج تھا "ابنِ حوا"۔ وہ حیرت سے کچھ دیر اس بیج کو خالی نظروں سے تکتا رہا مگر کچھ بھی سمجھ نہ پایا۔
پھر جیسے اس کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور کچھ کچھ یاد آنے لگا، اسے یاد آرہا تھا کہ اسے دل کا دورہ پڑا تھا اور سینےمیں اسقدر شدید درد اٹھا جیسے کسی نے دو پھل والا تیز دھار خنجر اس کے سینے میں اتار دیا ہو۔ اور پھر اس کے بیٹوں نے اسے کھینچ کر گاڑی میں ڈالا اور اسپتال کی طرف دوڑ لگا دی۔ لیکن راستہ میں ہی وہ شاید بےہوش ہوگیا تھا۔۔ نہیں نہیں۔۔ وہ بیٹے، بیٹیوں، پوتے پوتیوں کی رونے چلانے کی آوازیں۔ اس نے جوش سے سر ہلایا جیسے سب سمجھ میں آگیا ہو، ساتھ ہی اس کے ہونٹوں پر کشادہ مسکراہٹ پھیل گئی اور چہرے پر طمانیت کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔
پھر اس نے دیکھا کہ سب لوگ ایک طرف بھاگنے لگے ہیں وہ بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ بھاگتے بھاگتے وہ ایک جگہ پہنچے جہاں بہت سی لمبی لمبی قطاریں لگی تھیں، کچھ دیر توقف کے بعد وہ بھی ایک قطار میں لگ گیا۔ بہت عرصہ قطار میں لگا رہا شاید ہزاروں سال۔ گرمی اور پیاس نڈھال کیے دے رہے تھے۔ تبھی اسے یاد آیا کہ کیسے اس نے بیحد خوشحالی کے باوجود نہایت اچھی اور نیک پاک زندگی بسر کی۔
فرائض کی گونا گوں پابندی کے ساتھ نوافل کا بھی معمول رہا۔ یہی نہیں بلکہ صدقہ و خیرات کا بھی خاطر خواہ اہتمام رہتا، بیشتر حج، اور عمروں کی تو تعداد بھی یاد نہیں اور نہ یہ یاد تھا کہ کبھی کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہو، کسی کا حق کھایا ہو۔ بلکہ حتی الامکان لوگوں مدد ہی کی، آسانیاں ہی تقسیم کیں۔
وہ جس قطار میں کھڑا تھا وہ رینگتے رینگتے آخر کار ایک بڑی سفید عمارت میں داخل ہوئی۔ عمارت کے آخری سرے پر بڑے سے سفید چوبی میز کے پیچھے ایک سفید پوش کھڑا تھا، جو اپنے پاس پہنچنے والے ہر شخص کا بیج پکڑتا، اسے الٹا کر دیکھتا اور اپنے پیچھے موجود قدِآدم الماری میں سے فائل نکال کر اس شخص کو تھماتے ہوئے عمارت کے دائیں اور موجود بہت سے دروازوں میں ایک کی طرف اشارہ کرتا۔ اور وہ شخص فائل اٹھائے میکانکی انداز میں بتلائے گئے دروازے میں سے گذر کر غائب ہو جاتا۔
باری آنے میں ابھی خاصی دیر تھی۔ وہ پھر کتابِ ماضی کے اوراق کھنگالنے لگا۔ کیسے وہ اپنی بڑی سی گاڑی میں صبح ہی فیکٹری پہنچ جاتا۔ اس کی فیکٹری کی چمنی سیاہ کثیف دھواں اگلتی دور سے ہی دکھائی دے جاتی اور اس کا سینہ فخر سے پھول جاتا۔ اسی طرح واپس جاتے ہوئے عقبی شیشہ میں دیر تک گاڑھے سیاہ دھویں کے مرغولے ہوا میں گھلتے دیکھ کر خوش ہوتا رہتا۔ حالانکہ بارہا اسے محکمہ ماحولیات کے افسروں نے سمجھایا کہ یہ زہریلا دھواں بہت سی زندگیوں کے لیے خطرہ ہے مگر وہ ہر بار انہیں موٹا سا لفافہ تھما کر خاموش کرا دیتا۔ اسے لگتا تھا یہ دھواں اس کی خوشحالی ہے اس کی خوش بختی ہے۔
اب وہ سفید پوش کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔ قطار میں پہلے سے موجود دو حضرات کو سفید اور سبز رنگ کی فائلیں ملی تھیں اور ان کو بالترتیب سفید اور سبز دروازوں کی طرف بھیجا گیا تھا۔ اب یہ سفید پوش کے روبرو تھا۔ جس نے اس کا بیج پکڑا، اسے الٹا کیا۔ بیج کی پچھلی جانب کوئی بارہ ہندسوں کا ایک عدد درج تھا۔ جسے دیکھتے ہی سفید پوش اپنے پیچھے رکھی الماری کی طرف بڑھ گیا۔ چند ثانیوں کے بعد جب وہ مڑا تو اس کے ہاتھ میں ایک سرخ فائل تھی جو اس نے آتے ہی اسے پکڑا دی اور ساتھ ہی آخری کونے میں لگے سرخ دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
اسے لگا کہ جیسے وہ خود بخود میکانکی انداز میں سرخ دروازے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پھر دروازے کی دوسری طرف جاتے ہی اس نے تجسس سے جھٹ پٹ فائل کھولی۔ ایک طرف اس کی تصویر لگی تھی جس کے نیچے لکھا تھا "ابنِ حوا" اور ساتھ ہی بارہ ہندسوں والا وہی عدد۔ جبکہ فائل کی دوسری طرف سفید صفحے پر سرخ روشنائی میں جلی حروف سے درج تھا
"ساڑھے سات قتل"