Rui Ki Aynakein
روئی کی عینکیں
پاکستان دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ ہماری کپاس کی سالانہ اوسط پیداوار اسی لاکھ بیلز کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ کپاس کی پھٹی ننانوے فیصد جس کیمیائی مرکب پر مشتمل ہوتی ہے اسے سیلولوز کہتے ہیں۔ عام گھریلو سرکہ میں موجود کیمیائی مرکب ایسٹک ایسڈ سے اگر کپاس کے سیلولوز کا تعامل کروایا جائے۔ تو ایک طرح کا لچکیلا اور کسی قدر مضبوط پلاسٹک سیلولوز ایسیٹیٹ وجود میں آتا ہے۔ یہ وہی پلاسٹک ہے جس سے بہت عرصہ تک کیمرہ کی فلمیں بنائی جاتی رہیں۔ یہ بائیوڈیگریڈایبل ہونے کی وجہ سے پلاسٹکس میں سب سے پسندیدہ انتخاب ہے۔
سیلولوز ایسیٹیٹ کو تھوڑے سے ایسیٹون کے ساتھ ملاکر ربڑ کی اشیاء بنانے والے رولز میں سے دس بیس بار گذارا جائے تو اس کی کسی قدر نرم شیٹیں تیار ہوجاتی ہیں۔ ان شیٹوں میں مختلف شوخ اور دیدہ زیب رنگ ڈال کر انہیں دوبارہ انہیں رولز میں سے گذارا جاتا ہے۔ جس سے خوبصورت رنگارنگ سیلولوز ایسیٹیٹ شیٹس تیار ہوجاتی ہیں۔
ان شیٹس کو چاہیں تو ایک رنگ میں ہی استعمال کر لیں، اور اگر چاہیں تو کٹر کی مدد سے کاٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کردیں۔ پھر مختلف رنگوں کے ٹکروں کو آپس میں ملا کر پریس پر دباؤ دینے سے وہ اس طرح یکجان ہوجاتے ہیں کہ ہر ٹکڑا اپنا رنگ قائم رکھتا ہے۔ یوں ایک متنوع رنگ (multi color) انتہائی دیدہ زیب سیلولوز ایسیٹیٹ شیٹ تیار ہوتی جسے ایسیٹیٹ شیٹ کہتے ہیں۔
یہی وہ شیٹ ہے جس سے دنیا کی مہنگے ترین برانڈز گوچی، پراڈا، سالس، اور وانی وغیرہ کے ایسیٹیٹ کے چشمے بنا ئے جاتے ہیں۔ اٹلی اس فن میں عروج پر ہے۔ وہاں چشمے بنانے کی ہزار کے قریب بڑی فیکٹریاں ہیں۔ جہاں نہ صرف ہزاروں لوگ برسر روزگار ہیں بلکہ پچھلے سال اٹلی کی عینکوں کی برآمد ساڑھے تین ارب یورو سے متجاوز تھیں۔
سیلولوز ایسیٹیٹ بنانا بہت آسان عمل ہے۔ لیکن قباحت یہ ہے کہ اس میں استعمال ہونے والا کیمیائی مرکب ایسٹک انیائیڈرائیڈ، ایک مشہور زمانہ نشہ آور شے کی تیاری میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے اس پر نارکوٹکس کنٹرول والوں کا کڑا کنٹرول ہے۔ لیکن بڑی کمپنیاں بہرحال سیلولوز ایسیٹیٹ بہت وافر مقدار میں بنارہی ہیں۔ یہ ان سے خرید کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
سیلولوز ایسیٹیٹ سے شیٹ بنانے کے لیے صرف ایک ربڑ تیار کرنے والا رول درکار ہے جو ہمارے ہاں ربر کے پرزے بنانے والی فیکٹریوں میں عام لگے ہیں۔ اور ان پر کام کرنے والے کاریگر بھی وافر موجود ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ سیلولوز ایسیٹیٹ میں کچھ مقدار میں ایسی ٹون ملا کر چند بار رولز میں سے گذارنے سے شیٹ بن جاتی ہے جس میں رنگ ملا کر اور پھر مختلف رنگوں کی شیٹ کو کاٹ کر آپس میں مکس کرکے ٹیکنی کلر شیٹ بنائی جاتی ہے۔
ان شیٹس سے عینک کے فریم کے برابر ٹکڑے کاٹ کر انہیں سی این سی راؤٹر پر اندر اور باہر سے مشین کرلیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی سی این سی راؤٹر ہیں جن سے لکڑی کے ٹوتھ برش یا موبائل فون کے گلاس پروٹیکٹرز بنائے جاتے ہیں۔
شیٹ بنانے کی فیکٹری میں ربڑ والے رولز، کٹر اور ہائیڈرالک پریس کی ضرورت ہوتی ہے۔ کم استعداد کا رول پریس سات سے دس لاکھ روپے کا ہوگا۔ جن پر دن میں سو سے زائد شیٹس بنائی جاسکتی ہیں۔ ایک شیٹ کا وزن ڈیڑھ سے دو کلوگرام ہوتا ہے۔ جبکہ اس کی قیمت فروخت پندرہ سو سے دوہزار روپے فی کلوگرام ہے۔ لاگت ایک ہزار روپے کلو سے بارہ سو روپے کلو آئے گی۔
فریم بنانے کیلئے دو عدد سی این سی راؤٹر، دو ہاٹ پلیٹ پریس۔ ایک فنشنگ مشین ایک وائر انسرٹنگ مشین اور بف لگانے کی مشین کے علاوہ کچھ چھوٹے موٹے اوزار چاہئیں۔ پورا سیٹ اپ اٹھارہ سے بیس لاکھ میں بن جانا چاہیے۔ اوسط معیار کا ایسیٹیٹ فریم پندرہ سو روپے سے ڈھائی ہزار تک بکتا ہے۔ تھوک میں ہزار کا بھی ہو تو کم از کم سو فیصد منافع ہے۔ یہی فریم مختلف برانڈز سو ڈالر سے ڈھائی سو ڈالر تک فروخت کررہے ہیں۔ فریم بنانے کے دوران جو برادہ بنے گا وہ تمام دوبارہ سے شیٹ بنانے استعمال ہوجائے گا۔
میرے تخیل میں ہے کہ پاکستان کا کوئی قصبہ یا چھوٹا شہر جیسے دیر یا مردان یا جھنگ یا خیرپور کو اس ایک صنعت کا مرکز بنادیا جائے۔ ایک چھوٹا سا تربیتی ادارہ اور فیکٹری ان میں سے کسی شہر میں قائم کی جائے اور پھر مقامی لوگوں کو تربیت دے کر انہیں اس کام پر لگا دیا جائے تو چند سال میں نہ صرف کروڑوں ڈالر کی درآمدات کم ہوں گی بلکہ ہم اربوں روپے کی برآمدات بھی کر سکتے ہیں۔ سوائے مضبوط قوت ارادی کے اور کوئی رکاوٹ ہے تو بتائیں۔