Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Professor Sahib Ke Tahaif

Professor Sahib Ke Tahaif

پروفیسر صاحب کے تحائف

پروفیسر عدنان خان نیازی فرماتے ہیں کہ ایک محترمہ ان باکس وارد ہوئیں اور چھوٹتے ہی پوچھا آپ کے دوستوں مہدی بخاری اور ابن فاضل میں سے زیادہ کیوٹ کون ہے؟ اس پر قابل خرگوشوی کا تبصرہ ہے کہ مولانا کی قسمت دیکھیے کہ پہلی اور آخری بار کوئی خاتون ان باکس ہوئیں اور پوچھا بھی تو دوستوں کے متعلق۔

جبکہ مایوس دقیانوسی کا خیال ہے خاتون کو کسی نے غلط مخبری کی ہوگی کہ پروفیسر صاحب نے فرانس سے جو پی ایچ ڈی کررکھی ہے وہ "کیوٹولوجی" میں ہے۔ حالانکہ ان کی ڈگری "گپالوجی" میں ہے۔ ہمیں کسی سرکاری محکمہ میں کام پڑا۔ افسر مذکور کے پی اے نے ہمیں "بالائی خدمت" کی بابت اپنے تئیں مکمل جانکاری دے کر صاحب سے ملاقات کا بندوبست کردیا۔

جب ہم صاحب کے روبرو ہوئے تو ٹھٹھک گئے۔ یہ لمبی داڑھی جبین ناز محراب سے مزین، نورانی چہرہ۔ بھئی ہم نے تو سچی بات ہے فقط علمی و روحانی بلکہ حیات بعد ازممات پر، پر مغز گفتگو کے بعد اجازت چاہی۔ واپسی پر پی اے نے پوچھا ڈیل فائنل ہوئی۔ ہم نے کہا خدا کا خوف کرو کہاں وہ ولی صورت افسر اور کہاں تمہارا گمان پرفطن۔ ترنت بولا۔ لو صاحب صورت کو چھوڑیں حلیہ اپنی جگہ دنیاداری اپنی جگہ۔ آپ بس خدمت کیجئے اور اثر دیکھیے۔

مگر اپنے پروفیسر صاحب بہرحال بھلے آدمی ہیں۔ بالائی خدمت پر یقین نہیں رکھتے بلکہ بالائی آمدنی کے لیے شہد اور مکھن وغیرہ کا کاروبار کرتے ہیں۔ اشیاء مذکور کی بکری میں اضافہ کی خاطر آئے روز کوئی نہ کوئی مینا بازار ان کی "سد امجد" پر منعقد رہتا ہے۔ عید سے چند روز قبل انہوں نے لکھاریوں کی کیٹ واک کروائی تھی کہ سب لوگ اپنے اپنے پسندیدہ لکھاریوں کو صدائیں دیں۔ جس کا نام زیادہ بار پکارا گیا اسے تحائف دیے جائیں گے۔ کچھ مہربانوں نے ہمارا نام بھی پکارا۔

ہم نے بہتیرا کہا کہ کوئی" فیٹ واک" fat walk ہو تو ہمارے شایان شان بھی ہے مگر لوگوں کی اپنی مجبوری۔ بہر حال پروفیسر صاحب کا حکم موصول ہوا کہ پتہ بتائیں تحائف بھیجنا ہیں۔ ہم نے بھی جھوٹ موٹ کی شدومد کے بعد دیدیا۔ عید سے چند روز قبل شہد، دیسی گھی اچار اور کھجوروں کا تحفہ موصول ہوا۔ یہ تو اب آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ ان کی مصنوعات کا معیار ہر لحاظ سے بہترین ہوتا ہے۔ سو پاکر اور کھاکر جی بہت خوش ہوا۔

سوچا شکریہ ادا کردیں مگر قابل خرگوشوی حائل ہوگئے۔ کہتے انہوں نے تحائف آپ کے احسانات کے بدلہ میں دیے ہیں۔ ہم نے حیرت سے پوچھا بھئی کون سے احسانات؟ تب قابل خرگوشوی نے یاد دلایا کہ عہد شباب میں جب پروفیسر صاحب فرعون کے بچوں کو ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے اوربچے مسلسل پچہتر سال تک ساتویں میں فیل ہوتے رہے تو تنگ آکر فرعون نے دھمکی دی کہ اگر بچے اس سال بھی پاس نہ ہوئے تو پروفیسر صاحب کو "ممی" بنادیا جائے گا۔

عرض کیا کہ یاد تو نہیں آرہا مگر میڈیکل کی رو یہ دھمکی درست نہیں کہ پروفیسر صاحب پاپا تو بن سکتے ہیں ممی نہیں۔ اوہ ہو وہ ممی جو فراعین مصر بنایا کرتے تھے لوگوں کو گرم مصالحہ لگا کر۔ قابل خرگوشوی نے وضاحت کی۔ نہیں معلوم آپ کیا کہہ رہے ہیں ہم نے حیرت سے کاندھے اچکائے تو قابل خرگوشوی گویا ہوئے۔

بھئی یہ ان دنوں کی بات ہے جب آپ اناطولیہ کی پہاڑیوں کے دامن میں بھوری لومڑیوں کی چربی سے لکڑی کے پہیوں والی بیل گاڑیوں کے لیے گریس بنانے کے تجربات کیا کرتے تھے۔ تب یہ پریشان حال آپ کے پاس آئے تھے کہ فرعون کے بچوں کو کسی طور پاس کروانے میں میری مدد کریں۔ تب آپ نے بھیس بدل کر انہیں مہینہ بھر پڑھایا تو وہ کہیں جاکر پاس ہوئے تھے۔

اچھا بھئی آپ کہتے ہیں تو مان لیتے ہیں مگر یہ پروفیسر صاحب وہاں سے پھر فرانس کیسے پہنچے۔ یہ داستان طویل ہے کسی دن فرصت میں۔ ابھی ہمیں بیگم صاحبہ کو دریائے نیل کی سیر کروانا ہے اوہ میرا مطلب شاپنگ پر لیکر جانا ہے۔

Check Also

Jimmy Carr

By Mubashir Ali Zaidi