Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Pakistani Brands

Pakistani Brands

پاکستانی برانڈز

سال انیس سو چورانوے، لاہور شیخوپورہ روڈ ایک صاحب نے ریگ مار بنانے کی فیکٹری لگائی۔ فیکٹری مکمل ہونے پر پیداوار شروع ہوئی۔ مال لیکر وہ فروخت کے لیے برانڈرتھ روڈ لاہور آیا۔ ریگ مار کے ڈیلرز کے پاس گیا۔ سب نے مذاق اڑایا، یہ نہیں چلے گا۔ یہ نہیں بکے گا۔ کوئی لے گا ہی نہیں۔ وہ کئی دن تک مختلف لوگوں سے ملتا رہا۔ ایک آدھ کے سوا سب نے نہ صرف مال لینے سے انکار کر دیا بلکہ الٹا اس کو سخت مایوس بھی کیا۔

وہ شخص بھاری سرمایہ کاری کرچکا تھا۔ اس نے مختلف زاویوں اور ہم وطنوں کے رویوں پر غور کرنا شروع کیا۔ اور پھر ایک روز اس نے مارکیٹ آکر سب کو بتا دیا کہ اس سے غلطی ہوئی جو یہ فیکٹری لگا لی۔ اب میں یہ فیکٹری بند کر رہا ہوں۔ اس کے بعد اس نے نیا مال بنوایا، اس پر چین کے مشہور برانڈ کی مہریں لگائیں، کہیں سے چینی اخبارات کی ردی حاصل کی۔ وہ ریگ مار اس چینی اخبارات کی ردی میں باندھ کر کچھ پٹھان بھائیوں کو دیکر انہیں ڈیلرز کے پاس روانہ کردیا۔ پٹھان بھائیوں نے ان سے کہا کہ ہم چین سے مال لاکر بیچتا ہے۔ ہمارے پاس یہ ریگ مار ہے۔

انہوں ڈیلرز نے وہی ریگ مار بخوشی قبول کیا۔ بلکہ اپنی ضرورت سے بھی زیادہ خرید کر جمع کرلیا۔ یہ سلسلہ ایک ڈیڑھ سال تک چلتا رہا۔ پھر ایک روز وہ کارخانہ دار انہیں دکانداروں کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ یہ میرا ہی مال ہے جو آپ خرید رہے ہیں۔ تب سے انہوں نے براہ راست مال خریدنا شروع کیا۔

ایک دوست ہیں وہ پچھلے بیس سال سے بلوور بنا رہے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ جب شروع شروع میں بنایا تو بہت شوق تھا، میڈ ان پاکستان لکھ کر بیچنے کی بہت کوشش کی۔ بہت کم بکتا تھا۔ فیکٹری چلانا ممکن نہیں تھا۔ پھر میڈ ان چائنہ کی مہریں لگائیں، چین جیسی پیکنگ بنوائی۔ تب سے آج تک فیکٹری چل رہی ہے۔ آپ چاہیں تو ایسی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

جو گاڑیوں، ٹرکوں، ٹریکٹروں وغیرہ کے آپ چائنہ، تائیوان یا کوریا کے پرزہ جات خریدتے ہیں اس میں سے کم از کم پچاس فیصد داروغہ والا انڈسٹریل ایریا میں بنے ہوتے ہیں۔ جو صارفین کی میڈ ان پاکستان پر عدم اعتماد کی وجہ سے دکانداروں کے دباؤ پر غیر ملکی مہریں لگا پر انہیں کی پیکنگ میں فروخت کیلئے پیش کیے جاتے ہیں۔

پروفیشنٹ کار، پک اپ بنی، نہیں بک سکی۔ ایڈم موٹرز نے ریوو کار بنائی۔ کمپنی، بکری نہ ہونے کی وجہ سے دیوالیہ ہوگئی۔ اب یونائیٹڈ موٹرز نے براوو بنائی ہے، قیمت آدھی سے بھی کم ہے۔ کتنے لوگوں نے پذیرائی بخشی۔ جب آپ کہتے ہیں کہ شان مصالحہ جات، اور لذیذہ کھیر مکس، روح افزا اور جام شیریں وغیرہ نے خود کوکوالٹی کی بنا پر منوا لیا تو باقی لوگ کیوں نہیں منواسکتے۔ تو گذارش یہ ہے کہ مصالحہ جات اور روح افزا کے مقابل بدیسی مصنوعات کون سی ہیں۔ نہ چینی یا امریکی روح افزا، مسالہ جات استعمال کرتے نہ بناتے ہیں۔ جو وہ بناتے ہیں ان کی بات کریں۔

ذوالفقار انڈسٹری، کیپری سوپ دہائیوں سے بنارہی ہے۔ تبت سوپ بن رہا، صوفی والوں کا باتھ سوپ ہے۔ معیار کسی بھی طور لکس یا پامولیو صابن سے کم نہیں، کتنے فیصد لوگ محض اس وجہ سے استعمال کرتے ہیں کہ میرے وطن کی مصنوعہ ہے۔ کپڑے دھونے کا ڈٹرجنٹ گائے سوپ نے بنایا ہے، صوفی نے بنایا ہے، اور کئی مقامی کمپنیاں ہیں، ہر جگہ سرف، ایریل اور ایکسپریس ہی دکھائی دیتے ہیں۔ کیوں؟

امرت کولا، پاک کولا، مکہ کولا اور نہیں معلوم کتنی اس طرح کی فیکٹریاں بڑے چاو سے لگیں، قیمت بھی کم تھی، معیار میں بھی کوئی قابل ذکر فرق نہیں تھا۔ کیوں نہیں خریدتے تھے۔ کیوں بند ہوگئیں۔ آج بھی گورمے کولا اور کولا نیکسٹ مہمانوں کوپیش کرتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں، حالانکہ مہمان بھی پاکستانی ہی ہوتے ہیں۔ خشک دودھ ہلہ نے بنایا، گورمے نے بنایا، اولپرز نے بنایا۔ سب جگہ ابھی بھی ایوری ڈے ہی چلتا ہے۔ کیوں؟

شاید دس فیصد لوگوں کو علم ہوگا کہ دوہزار پندرہ سے ہائیر پاکستان میں فون بنارہا ہے۔ کبھی تقابل کرنے کیلئے بھی دیکھا ہو تو کہیے۔ گزارش یہ ہے کبھی تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ میں، میری ذات، میرا منافع، میری آسودگی، اجتماعی یا ملکی مفاد سے متصادم ہیں۔ کبھی تو میرا کوئی رویہ میرے ملک کے فائدے کے لیے بھی ہو۔ دنیا بھر میں جتنے ملک یا قومیں بحرانوں سے نکلی ہیں یا اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی ہیں ان کے رویے دیکھیں اور پھر کوئی ایک اجتماعی عادت اپنے اور ان میں مشترک تلاش کرکے دکھائیں۔ اپنی زبوں حالی کی وجہ سمجھ جائیں گے۔

Check Also

Jab Aik Aurat Muhabbat Karti Hai

By Mahmood Fiaz