1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Namoos e Be Rehem

Namoos e Be Rehem

ناموسِ بے رحم

محمد حسین لاہور کے مضافات میں ایک چھوٹا سا کارخانہ دار ہے۔ بہت محنت کے باوجود بمشکل تمام گذر بسر ہوتی ہے۔ کسی مشترکہ دوست نے تعارف کروایا تو کہنے لگا صاحب مجھے بھی کچھ بتائیں کہ آمدن کیسے بڑھائی جائے۔ عرض کیا کہ مجھے آپ کے کام اور قابلیت کے متعلق کچھ بنیادی باتیں جاننا ہیں۔ کہنے لگا بس پھر آپ اتوار کے روز میرے ساتھ چائے پئیں۔ بہت منع کیا مگر اس کے خلوص اور ضد کے سامنے ہار ماننا پڑی۔

چائے سے پہلے اس نے سموسے پیش کیے۔ وہ سموسے کیا تھے بس کوئی سوغات تھی۔ اس قدر خستہ اور زبردست کہ بڑے سےبڑے نامور سموسہ بیچنے والوں کا معیار ان کے سامنے بونا تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ محمد حسین نے خود بنائے ہیں۔ میں نے کہا بس تمہاری اضافی آمدنی کا بندوبست ہوگیا۔ ہم ایک زبردست جگہ پر ایک آراستہ وپیراستہ بڑی سی دوکان بنائیں گے جہاں سارا سامان سٹین لیس سٹیل کا ہوگا اور شیشہ کے کیبن میں لوگوں کے سامنے انتہائی خوبصورت اور قابل نمائش انداز سے سموسے بنائے اور بیچے جائیں گے۔

محمد حسین پہلے تو جھجھکا، پھر راضی ہوگیا۔ ہم نے فزیبیلٹی تیار کروائی، کوئی دس لاکھ کی سرمایہ کاری تھی اور منافع بتدریج بڑھتا ہوا اس کی ضرورت اور تصور سے کہیں زیادہ متوقع تھا۔ ایک سرمایہ کار کو رضامند کیا، اور دونوں کے درمیان ایک کا روباری معاہدہ کی تحریر رقم کروا کردونوں کو اپنے دفتر بلایا۔ محمد حسین اپنے چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لے آیا۔ گپ شپ اور چائے کے دور کے بعد جب معاہدہ پر دستخط کی باری آئی تو معلوم ہوا کہ محمدحسین کا بھائی اس ساری کاروائی سے نابلد تھا۔ جیسے ہی اسے معلوم ہوا کہ بھائی سموسے بیچنے کی دوکان بنانے لگے ہیں اس نے باقاعدہ ہنگامہ کردیا۔

معلوم ہوا کہ وہ بڑا کارخانہ دار ہے اورشہر کے مشہور علاقہ میں بڑے گھر میں رہتا ہے۔ اس کے خیال میں اس کیلئے بہت عار کی بات تھی کہ اس کا بھائی سموسے بیچے۔ وہ دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ ہم نے اسے بہت سمجھایا مگر اس نے کسی کی ایک نہ سنی۔ بلکہ جاتے ہوئے کہہ گیا کہ۔ محمد حسین اگر تم نے یہ کام کیا تو تمہارا ہمارا تعلق ختم۔ تم میرے لیے مر گئے اور میں تمہارے لیے۔

اس کے جانے کے بعد محمد حسین کتنی دیر روتا رہا۔ مگر بھائی کو ناراض نہیں کرسکا۔ اس نے وہ معاہدہ نہیں کیا۔ کافی عرصہ بعد آج محمد حسین سے ملاقات ہوئی۔ بالکل ویسے ہی حالات ہیں۔ میں نے بھائی کا پوچھا کہنے لگا اس نے کراچی میں بھی ایک بہت بڑا کارخانہ لگا لیا ہے۔

Check Also

Tehreek e Azadi e Kashmir Par Likhi Gayi Mustanad Tareekhi Kitaben

By Professor Inam Ul Haq