Nala e Jaras
نالہ جرس
تھوڑے بہتر معیار کی نمکو تو دیکھی ہوگی۔ کچھ کاجو، چند بادام، تھوڑی سی مونگ پھلی، کچھ کشمش اور پھر بیسن کی سویاں اور دال یا چنے۔۔ مہمانوں کے سامنے جب پلیٹ بھر کے ایسی نمکو رکھی جاتی ہے تو بیشتر لوگوں کی کوشش رہتی کہ زیادہ سے زیادہ کاجو بادام اور کشمش ہی ان کی چمچ میں آئے۔
ان بیش قدر نٹس کی وجہ سے کم قیمت دال۔ سویاں بھی کھائی جارہی ہوتی ہیں۔ لیکن پھر کچھ کایاں محض یہ مہنگے نٹس ہی چن کر کھانے لگتے۔۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ کچھ دیر بعد پلیٹ میں صرف دال اور سویاں ہی پڑی رہ جاتیں۔ جن پر شاید کی کسی کی نگاہ التفات پڑتی ہو۔ مہمانوں کے جانے کے بعد گھر کے بچے بھی اس میں چنداں دلچسپی نہیں لیتے۔
بالکل اس دال سویوں کی تلچھٹ جیسا ہوتا جارہا ہمارا معاشرہ۔ ذہین، قابل، ہنرمند اور دولتمند لوگ معاشرے کی قدر ہوتے ہیں۔ جس معاشرے یا ملک میں جتنے زیادہ قابل یا وسائل والے لوگ ہوتے ہیں اتنا ہی اس معاشرے کے کم ذہین اور کم وسائل والے لوگوں کی زندگیاں بھی آسودہ حال۔ ہونے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ مگر جہاں قابل اور دولتمند لوگ کم ہوں وہاں کم پڑھے لکھے اور کم وسائل والے افراد کے ترقی کے مواقع محدود ہوجاتے ہیں۔ اور ہم بالکل ایسا ہی معاشرہ بنتے جا رہے ہیں جہاں جمہور کی آسودہ حالی کا ہدف دن بدن دور ہوتا جارہا ہے۔
کبھی ہم برین ڈرین کا غوغا سنتے تھے اب تو برین اور ریسورسز دونوں کا ڈرین ہورہا ہے۔ اور جس شدت سے ہورہا ہے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مزید یہ کہ اس کے لیے موافق حالات ایک دن، ایک سال یا چند سال میں نہیں بنے۔۔ یہ 'ہماری' دہائیوں کی 'کارکردگی' ہے جس نے وطن عزیز کو بتدریج اس حال تک پہنچایا ہے۔
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی