Mera Yaqeen Karo Main Sach Keh Raha Hoon
میرا یقین کرو میں سچ کہہ رہا ہوں
انسانی ذہن بھی کمال ہی شے ہے۔ اپنی من پسند اشیاء یا واقعات کی زبردست سی تصاویر بناکر، انہیں خوبصورت چوبی فریم میں لگا کر، لاشعور کے گیلری میں لٹکا رکھتا ہے۔ پھر ان پرخوب ہار وار بھی ڈال دیتا ہے۔ جب کبھی اس شے یا واقعہ سے متعلق کوئی کلیدی لفظ پردہ سماعت سے ٹکراتا ہے یا حیطہ تخیل میں آتا ہے یہ فوراً اس تصویر کو نکال، جھاڑ پونچھ ہمارے چشم تصور کے سامنے پیش کردیتا ہے۔
آج ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جونہی ہم نے سوچا کہ آج مالٹا ریل سے کچھ سفر کیا جائے، ذہن حیلہ ساز نے شنگھائی، بیجنگ، استنبول، کوالالمپور اور سنگاپور وغیرہ کی میٹروز کے مناظرلاکر ہمارے سامنے ڈھیر کردیئے۔ صاف ستھرے سٹیشنوں پر بنے سنورے لوگ چھتریاں، سفری بیگز اٹھائے بھاگم بھاگ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اترنے والوں کی بھی جلدی ہے، سوار ہونے والے بھی عجلت میں ہیں۔ گاڑیاں کھچاکھچ ہیں، نفیس صاف ستھرے لوگ خوبصورت لباس زیب تن کیے ٹائیاں لگائے کوٹ پہنے مسرور، مطمئن۔
کوئی فون میں مگن، کوئی ہمسفر میں غلطاں۔ آنکھوں میں یقین کی چمک، چہروں پر آسودگی کی طمانیت، خال ہی کوئی ہوگا جسے دیکھ کر لگے کہ یاسیت کا شکار ہے۔ ڈھونڈے سے بھی کوئی خستہ حال دکھائی نہ دے۔ ان پررونق خوشکن مناظر کی جھلکیاں پردہ یادداشت پر دیکھتے ہم سٹیشن پر پہنچے تو لگا، کسی دور افتاده دیہہ کے سٹیشن پر آن وارد ہوئے ہوں۔ خال خال لوگ۔ پلیٹ فارم تقریباً خالی۔ ریل کے مسافروں پر نگاہ ڈالی تو لگا جیسے کسی ہرکارے نے قانون شکنی پر نالش کرکے تحویل میں زبردستی بٹھایا ہو۔ متفکر چہرے، خالی آنکھیں۔ لباس سے چال تک ایک ہی پیغام یاس و خستہ حالی۔
وائے خدایا یہ کس آسیب کا سایہ ہے میرے ہموطنوں پر؟ یہ کونسی افتاد ہے جو ہم سب پر اتری ہے؟ کس نے چھین لی آنکھوں کی چمک، ہونٹوں کی ہنسی؟ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں سب سے مخاطب ہو کر چیخ چیخ کر کہوں۔ میرے ہموطنوں تمہیں کیا ہوا ہے؟ کس بات کی مایوسی ہے؟ کونسی صلاحیت ہے جو خلاق عظیم نے تمہیں دوسری قوموں سے کم دی ہے؟ کونسی نعمت ہے جو اس وطن عزیز پر نہیں اتری اور باقی ملکوں کے پاس ہے؟
خدائے بزرگ وبرتر کی قسم قدرت نے فیاضی میں کمی نہیں کی۔ دس کروڑ جوان، حسین، ذہین لوگوں کا دیس ہو، ہر موسم ہر فصل ہر نعمت مہیا ہی نہیں وافر مہیا ہے۔ یاس و نا امیدی کی ایک بھی ٹھوس وجہ نہیں۔ بس کمی ہے تو ہدف کے تعین کی، پیش قدمی کی۔
آؤ دوستو! اس یاس کے لبادہ کو چاک کریں، آؤ اپنے دوستوں اور دشمنوں کی درست پہچان کریں۔ آؤاپنی طاقت کا درست ادراک کریں، آؤ نئے علم و ہنر سیکھیں، آؤ اپنی صلاحیتوں کو بڑھائیں، آؤ مل کر ایک دوسرے کی مدد سے ایک دوسرے کے سہارے اپنی محرومیوں کو مٹا دیں۔ ہمارے اندر کوئی کمی نہیں۔ ہم بھی باقی دنیا کی طرح ترقی یافتہ اور خوشحال ہوسکتے ہیں۔
میرا یقین کرو میں سچ کہہ رہا ہوں۔