Mataa e Sakoon o Sarshari
متاع سکون و سرشاری
ایک عزیز بڑی حسرت سے بتا رہے تھے کہ ان کے والد صاحب ناشتے میں ایک ابلا ہوا انڈہ اور ایک چائے کا کپ لیتے تھے۔ انڈے تین روپے درجن تھے۔ مگر ہم سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ کبھی ایک درجن انڈے لا کر ہی رکھ دیتے کہ یہ آپ کا بارہ دن کا ناشتہ، کہتے آخر وقت تک وہ ہماری خدمت کرتے ہی دنیا سے چلے گئے۔ آپ کو بتا نہیں سکتے کہ اب کس قدر کسک رہتی ہے کہ کاش ایک دن کو ہی مل جائیں کچھ چاہتیں، کچھ حسرتیں ہم بھی پوری کرلیں، لیکن۔۔
ایک دوست نے کتنے چاؤ کتنے فخر سے بتایا کہ ماں جی کا آخری وقت تھا۔ ہم سب بھائی ان کے گرد جمع تھے بار بار ان سے پوچھتے تھے ماں جی کوئی زندگی میں کوئی کوتاہی کوئی کسر رہی ہو تو معاف کردیں اور ماں جی ساری کائنات کا پیار آنکھوں میں جمع کرکے مسکراتی تھی۔ جب ملک اجل نے حکم ربی کی پاسداری کی تو ان کا سر میری گود میں تھا اور ہاتھ میرے ہاتھ میں۔۔ کہتے من میں ایسی سرشاری ہے، دل کو اتنا اطمینان ہے کہ جیسے زندگی میں اب اور کچھ چاہیے ہی نہیں۔
ایک دوست کہتے رات میں ماں جی کی ٹانگیں دباتے تھے تو ان کو نیند آتی تھی۔ بارہا ایسا ہوتا کہ ہم ٹانگیں دبا رہے ہوتے اور وہ سوجاتیں، تو دل میں خواہش جاگتی کہ ایسے ہی ماں جی کی ٹانگیں دباتے رہیں اور فجر کی اذان ہوجائے۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوا۔ دس بیس منٹ بعد وہ خود ہی سوئے سوئے کہتی جا بیٹا سوجا اللہ تیرا بھلا کرے۔ کہتے ہیں اللہ نے ایسا بھلا کیا ہے زندگی میں سوچتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں جو پریشان رہتے ہیں۔
آپ کے ماں باپ حیات ہیں تو خدارا ان کے ساتھ وقت بتالیں۔ ان کی خدمت کرلیں۔ ان کی آسودگی کا باعث بن کر اطمینان و سرشاری کی دولت سمیٹ لیں۔ یقین کریں یہ متاع بے لوث کسی سکہ رائج الوقت کے عوض نہیں ملتا۔