Mard e Nadaa Ki Saalgirah Aur Kalam e Pur Asar
مرد ناداں کی سالگرہ اور کلام پر اثر
دو چیزیں ہمیں بالکل بھی یاد نہیں رہتیں۔ ایک لوگوں کے نام اور دوسرا اشعار۔ بہت شعوری کوشش کی لیکن حاصل صفر۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ کسی صاحب کو ضروری کام سے فون کرنا ہے۔ فون ہاتھ میں پکڑا ہے۔ بندہ کا چہرہ اور جثہ حتی کہ آخری ملاقات کا لباس اور گفتگو تک ازبر ہے مگر نام یاد نہیں آرہا۔ اب نام یاد نہیں تو نمبر کیسے ملائیں۔
آخر حل کے طور پر ہم نے لوگوں کے نام کے ساتھ انکی خصوصیات بھی محفوظ کرنا شروع کردیں۔ جیسے ایک صاحب ہیں فرض کریں شیدا، اب ان کی خصوصیت ہے ہر بات میں کل کل ڈالنا۔ ان کا نام شیدا کل کل کے نام سے محفوظ ہے اب کبھی نام یاد کرنے کی زحمت نہیں ہوتی۔ اسی طور ایک صاحب ہیں ناصر، بات بات پہ نصائح کرنا اور ہدایات جاری کرنا ان کا فرض منصبی ہے۔ ہم نے ناصر ہدایتکار لکھ رکھا ہے۔
ایک چوہدری صاحب ہیں، بہت بڑی فیکٹری ہے۔ فیکٹری میں بھینس پال رکھی ہے۔ سو چوہدری بھینس کے نام سے محفوظ ہیں۔ اب یہ باتیں ہم آپکو اس لیے بتا رہے ہیں کہ یہ طبی مسئلہ ہے اور مریض کو تو نماز بھی بیٹھ یا لیٹ کر پڑھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ آپ ہر گز حجت نہ بنائیے گا۔ اور یہاں یہ بتانا بھی تقریبا غیر ضروری ہی ہے کہ بفضل حق انوثات جملہ کے ناموں کی بابت ہرگز کوئی عارضہ یا ثقل نہ ہے۔
یہی حال اشعار کے معاملہ میں ہے۔ جتنی بھی کوشش کی کبھی سالم شعر اصل حالت میں یاد نہیں رہا۔ بس بازو کی جگہ ٹانگ اور ٹانگ کی جگہ دم ہی لگی۔ مثلا وہ مصرعہ ہے نا
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
کو زیادہ سے زیادہ بھی ٹھیک پڑھا تو یوں پڑھا ہوگا
وہ تیری چھت کی بارشیں برس گئیں کسی اور کے نصیب پر
لیکن ایک شعر ہمیں بالکل ٹھیک سے آتا ہے اور ہے۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
اب اسکی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس شعر کا سیاپہ ہی اتنی بار ڈالا گیا کہ تنگ آکر ہی ازبر ہوگیا۔ دوسرا یہ کہ اسقدر گیان کسی ایک شعر میں۔۔ خدا کی پناہ۔ نہ پہلے کبھی سنا نہ بعد میں۔ دیکھیں کیسا سائنسدان قسم کا شاعر ہے کہ ہیرے کی اناٹومی بھی پڑھ رکھی ہے۔ ورنہ ہم کوڑھ مغز تو ہیرے کو صرف ایک اجلا سا پتھر ہی سمجھتے رہے اور پھر یہ بھی پتہ ہے کہ اس جگر کے عارضہ کی صورت میں اس کا ٹرانسپلاٹ بھی ہو سکتا ہے۔ مزید براں اس ٹرانسپلاٹ کیلیئے جگر کو کاٹنا کس چیز سے ہے یہ بھی بتا دیا۔ کہ دنیا کے کسی کونے میں کوئی ایسا پھول بھی ہے کہ جس کی پتیاں چاقو بننے والے لوہے(knife steel)سے بنی ہوئی ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اتنا متنوع اور جدید علم اور وہ بھی فقط ایک مصرعہ میں۔ کوئی اور مثال ہے تو لائیں۔
البتہ دوسرا مصرعہ شاعر نے لگتا ہے کسی انگریزی دوا کے زیر اثر کہا۔ کہ مرد ناداں پہ کلام نرم ونازک بے اثر۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو مرد ناداں شاعر نے دیکھ رکھے ہوں وہ ہمارے والے مردانِ ناداں سے بہت ناداں ہوں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کلام نرم ونازک کا سوشل میڈیانا، جاہلانہ و بہادرانہ ایڈیشن شاعر کے دور میں دستیاب ہی نہ ہو۔ ورنہ ڈھلائی کی فیکٹری سے زیادہ مرد ناداں کہاں ہوں گے۔ اور ہمارا فورمین ادھر ابھی اس جدید کلام نازک کی پہلی سطر ہی الاپتا ہے ادھر سب روبوٹ بنے ہوتے ہیں۔
دوسرا تجربہ آج ہمیں ہورہا ہے صبح سے۔ کہ سالگرہ کے پیغامات تہینات کی صورت میں موصولہ کلام نرم ونازک نے اس دل مرد ناداں کو ایسا شاداں و فرحاں کر رکھا ہے کہ مجسم دوش بر ہوا ہیں۔ خود کو اہم اہم محسوس کررہے ہیں۔ بلکہ دل دل میں شکر گذار ہو رہے کہ ہم ساحر لودھی نہیں ورنہ کسی کے بھی کہنے پر خود کو شاہ رخ خان سمجھنے سے بھی ہر گز نہیں چوکتے۔
سب احباب کے تہہ دل سے مشکور ہیں کہ جن کی نوازشات نے ہمارا جنم دن ایسا یادگار بنا دیا۔