Madadgar
مددگار
گاڑی چھوٹی اور پرانی ہے تو کیا ہوا جذبات تو بالکل نوے نکور ہیں نا، اور پھر بچوں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ہم مری ایک بار بھی نہیں گئے۔ زاریہ نے بارہا ضد کی ہے کہ اس کی ساری ہم جماعت مری گلیات، سوات ہر جگہ گھوم آئیں ہیں، اور میں نے بھی تو آج تک برف باری نہیں دیکھی، بس ہمیں جانا ہے، زاہدہ نے اسقدر ضد کی تو چٹھہ صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ مہنگائی کی شرح میں ہوشربا اضافہ نے سفید پوش لوگوں کا جینا پہلے ہی دوبھر کررکھا ہے۔ چٹھہ صاحب کہنے کو تو شہر کی چینی ریستورانوں کی ایک بڑی زنجیر کی مرکزی شاخ میں مینیجر ہیں۔
مگر پھر بھی تنخواہ میں کوئی کہاں تک جئے، وہ تو شکر کہ گاؤں کی زمین بکنے سے جو رقم ہاتھ لگی اس سے شہرسے کسی قدر باہر ایک نئی کالونی میں پانچ مرلے کا گھر بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ورنہ اب تلک کرایہ کے مکانوں میں دھکے کھا رہے ہوتے۔ بیگم کی برفباری دیکھنے کی پرزور فرمائش پر انہیں چپ لگ گئی ہے۔ کیونکہ گھر کی تعمیر کے لیے آفس سے لیے گئے ایڈوانس کی ابھی اقساط باقی ہیں۔ ایسے میں انہیں مزیدایڈوانس نہیں مل سکتا، اور یہ جنوری 2022 ہے صاحب کم از کم پچاس ہزار جیب میں ہوتو برفباری دیکھنے کا سوچا جاسکتا ہے۔
لیکن بچوں کی خوشی کی خاطر آج تک ہر طرح کی قربانی دینے والے چٹھہ صاحب نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ انتہائی سنجیدگی سے کسی ایسے دوست کی تلاش میں تھے جس سے کچھ عرصہ کے لیے پچاس ہزار روپے ادھار مل جائیں اور آخر کار انہیں طلحہ کا خیال آگیا۔ ہنستے کھیلتے، کھاتے پیتے چھوٹا سا کنبہ چھوٹی سی گاڑی میں مری کی حدود میں داخل ہوا تو اندھیرا پھیل چکا تھا، بابا یہ پہاڑوں پر پریاں اترتی ہیں نا زاریہ نے سنجیدگی سے پوچھا تو بابا کی ہنسی چھوٹ گئی، نہیں بیٹا اصل میں پہاڑوں میں پراسرار سی خاموشی اور ہیبت ناک سا سکون ہوتا ہے اس لیے لوگوں کو لگتا ہے یہاں پریاں اترتی ہیں۔
مری میں آج لوگوں اور گاڑیوں کا غیر معمولی رش تھا۔ جیسے ساری خدائی ہی برفباری دیکھنے امڈ آئی ہو۔ سڑکیں تو صاف تھیں مگر کہیں کہیں گذشتہ شب ہوئی برفباری کے آثار تھے۔ مری کے قریب پہنچتے ہی ان کی گاڑی ریستورانوں کے نمائندوں نے گھیر لیا۔ لیکن کمروں کے ایک رات کے نرخ جان کر چٹھہ صاحب کی جبینِ دراز پر نقطہ انجماد سے کم درجہ حرارت پربھی ننھی بوندیں نمودار ہوچکی تھیں۔
ادھار کے پچاس ہزار روپے سے برفباری دیکھنے تشریف لانے والے چٹھہ صاحب کو محض ایک رات کے لیے ایک کمرہ کا کرایہ بیس ہزار سن کر یہ رد عمل عین فطری تھا۔ اندھیرا گہرا ہورہا تھا اور گاڑیوں کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی۔ دوسری طرف موسم کے تیور بھی کچھ تیکھے دکھائی دے رہے تھے۔ فیصلہ کرنے لیے وقت کم تھا۔ انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ یہاں سے چالیس پچاس منٹ کے سفر کے فاصلے پر مختلف چھوٹے قصبات اور گلیات ہیں وہاں رش کی صورت حال ایسی نہیں کرایے بھی مناسب ہیں بہتر ہے آپ رات وہاں بسر کرلیں۔ اور صبح واپس مری آجائیں۔
چٹھہ صاحب کو یہ مشورہ بہت بھلا لگا اور انہوں نے وقت ضائع کیے بنا گاڑی آگے بڑھا دی۔ سفرشروع ہوئے کو ابھی کچھ وقت ہی ہوا ہوگا کہ آسمان سے روئی کے گالے اترنا شروع ہوگئے۔ بچوں نے شور مچا یا۔ گاڑی ایک طرف روک کر کچھ دیر آسمان سے اترتی یخ روئی سے کھیلتے رہے پھر گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے۔ برفباری اور رات کے اندھیرے کے باعث بہت سی گاڑیوں کا ایک قافلہ سا بن گیا تھا جو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔
رفتہ رفتہ برفباری کی رفتار تیز ہوتی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ اس قدر تیز ہوگئی کہ مزید سفر جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔ پورا قافلہ قطار اندر قطار کھڑا ہو گیا۔ برفباری بڑھتی جارہی تھی ساتھ تیز ہوائیں بھی چلنا شروع ہو گئی۔ اندھیری رات آبادی سے دور ویرانہ، سخت سردی تیز ہوائیں اور چھوٹے بچوں کا ساتھ چٹھہ صاحب نے پہلی بار خطرہ کی شدت کا ادراک کیا۔ گاڑی سے باہر نکل کر آگے پیچھے دوسری گاڑی والوں سے بات کی سب پریشان تھے، کسی کے پاس کوئی حل نہ تھا کوئی کسی شناسا کو فون کررہا تھا اور کوئی کسی کو۔
گھنٹہ بھر کے بعد ساری گاڑیاں برف میں تقریباً دب چکی تھیں۔ بیشتر گاڑیوں میں مرد حضرات یا نوجوان لڑکے یا لڑکیاں ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ گاڑیاں یہیں چھوڑ پیدل واپس مری جائیں گے جو شاید ابھی سات آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہی ہوگا۔ اور اس پر عملدرآمد کے لئے نکل پڑے۔ چٹھہ صاحب کے ساتھ چھوٹے بچے ہیں تین تین فٹ برف میں ایک کلومیٹر بھی پیدل سفر ان کے لیے ناممکن ہے۔
وہ بے بسی سے گاڑی میں ہی بیٹھے ہیں۔ کبھی گاڑی سٹارٹ کرتے ہیں ہیٹر چلاتے ہیں۔ کبھی بند کردیتے ہیں۔ اس بات سے خوب شناسا ہیں کہ بند گاڑی میں کاربن مونو آکسائیڈ بھر سکتی ہے جو جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔ اس حالت میں نصف شب بیت چکی ہے۔ پٹرول ختم ہونے کو ہے۔ کھانے کی اشیاء بھی ختم ہیں۔ بچے بھوک اور سردی سے رورہے ہیں۔ زاہدہ خود کو کوس رہی ہے کہ کاش یہاں آنے کی ضد نہ کی ہوتی۔
قریب ہے چٹھہ صاحب کا حوصلہ جواب دے جائے انہیں بائیں طرف پہاڑ سے ٹارچ کی روشنی دکھائی دیتی ہے اندھیرے میں دو انسانی ہیولے برف کے ڈھیر میں تیزی سے نیچے اترتے ان کی طرف آرہے ہیں۔ چٹھہ صاحب کو ڈھارس بندھتی ہے۔ فوراً گاڑی سے نکلتے ہیں ان کو اشارہ کرتے ہیں۔ دو درمیانی عمر کے نوجوان کچھ ہی دیر میں ان کے پاس کھڑے ہوتے ہیں۔ سر یہاں گاڑی میں بیٹھنا آپ کے لیے اور بچوں کے لیے محفوظ نہیں اور قریب ہی ہمارا خیمہ ہے آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ حالات ان کے علاوہ کوئی بھی اور ہوتے تو اجنبی لوگوں کے ساتھ یوں جانا کبھی بھی دانشمندانہ فیصلہ نہ ہوتا۔ مگر اب فوراً حامی بھر لی گئی۔
دونوں بچوں کو دونوں جوانوں نے اٹھا لیا اور زاریہ کا ہاتھ چٹھہ صاحب نے پکڑلیا۔ سب لوگ برف میں راستہ بناتے گرتے پڑتے پندرہ منٹ میں پہاڑ کی اونچائی پر ایک نسبتاً سیدھے حصہ پر لگے ایک خیمہ کے سامنے تھے۔ دو جوان خیمہ کے گرد اٹی برف بیلچہ سے ہٹا رہے تھے۔ انہوں نے بھی چٹھہ صاحب کو سلام کیا۔ آپ یہاں سکون سے رات بسر کریں صبح ملتے ہیں۔ یہ کہ کر نوجوان ایک طرف اندھیرے میں چلتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
خیمے میں زمین پر بستر لگے تھے۔ بستروں پر دسترخوان بچھا کر اس پر روٹیاں، سالن اور پلیٹیں رکھی تھیں۔ درمیان میں لالٹین جل رہی تھی۔ کھانے کے بعد برتن سمیٹ کر بستروں میں دبکے چٹھہ صاحب اور زاہدہ حیرت اور خوشی سے اپنے رب کا شکر ادا کررہے تھے جس نے انہیں یقینی موت سے بچالیا تھا۔ صبح جب ان کی آنکھ کھلی تو اچھی روشنی پھیل رہی تھی۔ خیمہ کے دروازے سے نکل کر چٹھہ صاحب نے دیکھا کہ برف اور برفانی ہوائیں تھم چکی ہیں۔ سڑک کی طرف نگاہ دوڑائی تو دیکھ کر مسرت ہوئی کہ سرکاری مشینری برف ہٹا رہی ہے۔ وہ خیمہ میں واپس آکر بیٹھ گئے تب ان کی نظر ایک بوسیدہ اخبار پر پڑی جو ایک طرف پڑا تھا۔
وقت گذاری کے لیے اخبار اٹھایا۔ ایک خبر دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ چار نوجوانوں کی تصویر کے ساتھ لکھا تھا کہ طوفان برفباری میں گاڑی میں دم گھٹنے نے سے ہلاک۔ غور سے دیکھا تو رات ان کی مدد کرنے والے چاروں جوان تھے۔ اخبار پر تاریخ پڑھی تو درج تھا۔ سات جنوری 1988۔ چٹھہ صاحب گھبرا گئے۔ فوراً بچوں اور بیگم صاحبہ کو اٹھایا۔ عجلت میں خیمہ سے نکل کر گاڑی کی طرف چلے کچھ فاصلے پر جا کر خوف سے پیچھے دیکھا وہاں کوئی خیمہ نہیں تھا، ہر طرف برف ہی برف تھی۔