Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Koi Bekar Nahi Qudrat Ke Karkhane Mein

Koi Bekar Nahi Qudrat Ke Karkhane Mein

کوئی بیکار نہیں قُدرت کے کارخانے میں

روئے زمین پر اب تک دریافت قریب ایک لاکھ بیس ہزار خوردبینی جاندار یعنی جراثیموں میں تقریباً چھ ہزار ایسے ہیں جو خرابیاں پیدا کرتے ہیں باقی یا تو بے ضرر ہیں یا ہمارے لیے مفید ہیں۔ ان چھ ہزار میں سےبھی صرف ڈیڑھ ہزار ہیں جو انسانوں میں بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ ان بیماریاں پھیلانے والوں میں سر فہرست بیکٹیریا اور وائرس ہیں۔

بیکٹیریاز کی اگر بحیثیت مجموعی بات کریں تو ان کو اشکال کے لحاظ سے پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ان میں گیند کی شکل کے کوکس coccus اور راڈ کی شکل کے بیسےلائی۔ Bacilli زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ بیسے لائی کی قریب ڈھائی سو اقسام میں سے زیادہ تر انسانی جسم بطور خاص بڑی آنت میں پائی جاتی ہیں۔ انہی بیسے لائی میں سے ایک سب زیادہ مشہور اور بڑی مقدار میں پائی جانے والی قسم ای کولائی E coli کہلاتی ہے۔

ای کولائی کی آگے مزید تقریباً سات سو اقسام ہیں جن میں زیادہ تر بے ضرر ہیں۔ جبکہ ان کی کچھ اقسام زہریلے مادے پیدا کرتی ہیں۔ جنہیں شیگا ٹاکسین ای کولائی کہتے ہیں۔ ان شیگا ٹاکسین ای کولائی میں ایک قسم جسے O157:H7 کا نام دیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ بیماری پھیلانے کا باعث ہے۔ اس کی موجودگی ہر جگہ پر ہے۔ اس کی وجہ سے زیادہ تر پیٹ کے امراض جیسے پیچش، معدہ اور انتڑیوں وغیرہ کا درد ہوتا ہے۔

یہ بڑی تعداد میں کھیتوں سے پھلوں سبزیوں کے ساتھ ہم تک پہنچتا ہے۔ اگر پھلوں اور سبزیوں کو درست طریقے سے نہ دھویا اور پکایا جائے تو یہ انسانوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ زیادہ تر تو معدہ میں موجود تیزاب سے ختم ہوجاتا ہے مگر کم مقدار میں یا کھانے کے دوران یا بعد میں پانی کے استعمال کی صورت میں یہ آنتوں میں چلا جاتا ہے۔ جہاں پھر یہ خرابی کا باعث بنتا ہے۔

ایک امریکی رپورٹ کے مطابق صرف اکیلا O157:H7 سال بھر میں امریکیوں کو اس قدر بیمار کرتا ہے۔ کہ انہیں سالانہ پاکستانی تقریباً ستر ارب روپیہ کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ ہالینڈ جیسے چھوٹے سے ملک کو صرف ایک چھوٹے سے بیکٹیریا کی وجہ سے سالانہ سوا دو ارب روپیہ کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ دونوں ممالک بہت ہی ترقی یافتہ ہیں جن کے باشندے یقینا انتہائی پڑھے لکھے اور حفطان صحت کے اصولوں کے پابند رہے ہوں گے۔ اسی حساب سے دیکھا جائے تو ساری دنیا میں اس ایک بیکٹیریا کی وجہ سے سالانہ کھربوں روپیہ کا نقصان ہوتا ہے۔

اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ یہ جو اربوں روپیہ اس O157:H7 کی پیدا شدہ خرابیوں پر خرچ ہوا وہ اصل میں کہاں گیا۔ ظاہر ہے وہ اس کی دواؤں پر، ڈاکٹروں اور دوسرے طبی عملے کی فیسوں کی مد میں، لیبارٹریوں کے ٹسٹوں کی مد میں یا پھر اس بیکٹیریا کے تدارک کیلئے کی جانے والی نئی تحقیق پر خرچ ہوا۔ گویا اگر ایک طرف یہ نقصان ہے تو دوسری طرف ہزاروں لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔ درجنوں فیکٹریاں اس کی ادویات اور ٹسٹ کرنے والی کٹس بنارہی ہیں جہاں ہزاروں لوگ برسرِ روزگار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایک چھوٹی سی آنکھ سے دکھائی نہ دینے والی مخلوق دنیا بھر میں سالانہ کھربوں روپے کے کاروبار اور دولت کے بہاؤ کا باعث ہے۔

یہ صرف ایک جراثیم کا ایک فائدہ ہے جسے ہم جان پائے ہیں۔ باقی انجانی مخلوق جانے ہمارے لیے کیا کیا غیر مرئی خدمات انجام دے رہی ہے۔ تو کیوں نہ کہیں۔۔

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

Check Also

Siasat Yoon Hoti Hai

By Mubashir Ali Zaidi