Khush Aab e Keenu
خوش آبِ کینو
بہت سے لوگ سارا سال ناشتہ میں جوس لینا پسند کرتے ہیں۔ میرے لیے تو بہترین انتخاب مالٹے بطور خاص کینو کا جوس ہوتا ہے۔ جنوری سے مارچ تک تو کینو کی دستیابی رہتی ہے، باقی دنوں میں ڈبے کا غیر تسلی بخش یا کم از کم کیمیائی مرکبات سے محفوظ کیا گیا جوس ہی ملتا ہے۔ اور اگر کیمیائی مرکبات سے پاک خالص جوس ملے بھی تو وہ بہت مہنگا ہوتا ہے۔
اسی طور لیموں آجکل نسبتاً سستا ہے۔ کچھ دن پہلے تک منڈی میں پچیس روپے کلو دستیاب تھا اب شاید تھوڑے نرخ بڑھ گئے ہیں۔ مگر گرمیوں میں اس کی قیمت دوسو روپے فی کلوگرام تک چلی جاتی ہے۔ ایسے میں اگر ہم لیموں کا جوس نکال کر بنا کیمیائی مرکبات کے محفوظ کرسکیں تو یقیناً گرمیاں بہت مزے میں گذریں گی۔
متذکرہ بالا دونوں اہداف حاصل کرنا ممکن ہے بلکہ بہت آسان بھی ہے۔ بس آپ کو اس کیلئے شیشہ کی بوتلیں چاہئیں۔ جیسے کچھ عرصہ قبل تک ایک لٹر کی مشروبات کی بوتلیں ملتی تھیں، وہ مل جائیں یا آجکل دودھ کی ایک لٹر کی شیشہ کی بوتلوں میں ملتا ہے وہ مل جائیں۔ بازار سے نئی بوتلیں بھی مل جاتی ہیں۔ جام کی خالی بوتلیں بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔ بس ان کے منہ کے کنارے سلامت ہوں اور ڈھکن کے اندر کی طرف ربر کی تہہ کٹی پھٹی نہ ہو۔
کینو یا لیموں کو دھو کر رس نکال لیں۔ بوتلیں اور ڈھکن اچھی طرح دھو لیں۔ ایک پتیلی میں پانی میں بوتلیں اور ڈھکن ڈال کر گرم ہونے کے لیے رکھ دیں۔ دوسرے برتن میں جوس ڈال کر گرم ہونے دیں۔ آگ کی نسبت اس طور رکھیں کہ جب بوتل وال پانی ہلکا ابلنے لگے تب جوس نوے ڈگری پر ہو۔ پھر کسی چمٹہ سے بوتل پکڑ کر اسے خالی کریں اور گرم پانی میں رکھے ہوئے اس میں جوس انڈیل دیں۔
تھوڑی دیر اس حالت میں رہنے دیں کہ جوس کی بھاپ نکلنے لگے۔ تب گرم ڈھکن اچھی طرح مضبوطی سے لگا دیں۔ اور بوتلوں کو واپس پانی میں لٹا کر پندرہ منٹ تک گرم ہونے دیں۔ پھر نکال کر ٹھنڈا ہونے کے لیے رکھ دیں۔ بوتل میں جوس ڈھکن سے صرف آدھی سے ایک انچ نیچے ہوتو زیادہ بہتر ویکیوم بنے گا۔ اس طرح بھرا گیا جوس کم از کم ایک سال تک خراب نہیں ہوگا۔ ساری گرمیاں تازہ خوش ذائقہ جوس یا شکنجبین کے مزے اڑائیں۔
تجارتی بنیادوں پر یوں تو جوس کی فیکٹری لگانے کےلیے بہت سرمایہ درکار ہوتا ہے مگر اس طریقہ سے یہ کام چھوٹے پیمانے پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر تھوک میں پچیس روپے کلو کینو لیں تو جوس پچاس روپے کلو پڑے گا کہ دو کلو کینو سے ایک کلو جوس نکل آتا ہے۔ تھوک میں شیشہ کی ایک نئی بوتل پچاس روپے کی ملے گی۔ اگر دو لوگ ملکر دن میں سو بوتلیں بھی بھرلیں تو پندرہ روپے مزدوری پڑے گی۔ کارٹن اسٹیکرز وغیرہ کی قیمت ڈال کر - / 125روپے تیار ہوگی۔
مارکیٹنگ مضبوط ہو تو بغیر کیمیکلز خالص جوس کا ایک لیٹر دوسو سے ڈھائی سو روپے میں فروخت کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر برآمد کا کوئی آرڈر مل جائے تو اور بھی مہنگا بک سکتا ہے۔ لیکن مقامی طور پر بھی اگر ہم کولاز سے جان چھڑائیں اور ایسے قدرتی مشروبات کو فروغ دیں تو جہاں ہم بحیثیت مجموعی زیادہ صحت مند ہوں گے وہیں بہت سے لوگوں کے لیے نئے روزگار کے نئے دروازے بھی کھلے گے۔