Sunday, 08 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Itminan Ki Baat Ye Hai Ke

Itminan Ki Baat Ye Hai Ke

اطمینان کی بات یہ ہے کہ

آپ کے پاس گاڑی یا موٹرسائیکل ہو۔۔ جو سٹارٹ بھی ہوتی ہو۔۔ ایندھن بھی استعمال کرتی ہو، آکسیجن لیکر کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مبنی دھواں بھی بناتی ہو۔۔ شور بھی کرتی مگر کلچ یا گئیر وغیرہ کی خرابی کی وجہ سے اپنی جگہ سے نہ ہلتی ہو۔۔ چل کے ہی نہ دیتی ہو۔۔ آپ اس کو کیا کہیں گے۔۔ نرا خسارہ۔۔ ایندھن کا کباڑہ، بے کار، دھواں بنانے کی مشین۔ چلیں فرض کرلیں وہ بالکل ہی خراب نہیں مگر بس تھوڑا بہت چلتی ہے مگر ایندھن بہت زیادہ استعمال کرتی ہے۔۔ تو بھی آپ زیادہ عرصہ اس کو نہیں رکھیں گے۔ کسی کباڑیے کے ہاتھ چلتا کریں گے۔۔

آپ کے پاس کوئی گائے بھینس یا بکری ہو۔۔ چارہ خوب کھاتی ہو، برابر گوبر بھی کرتی ہو۔۔ خدمت بھی پوری کرواتی ہو مگر دودھ نہیں دیتی ہو۔۔ آپ اس کے متعلق کیا رائے رکھیں گے۔ بے کار، چارے کی دشمن۔ گوبر بنانے کی مشین۔ بوجھ۔ ہے نا، اور اگر وہی گائے بھینس یا بکری دودھ نہ دینے کے ساتھ ساتھ آپ کو مارنے کو بھی دوڑتی ہر آتے جاتے کو زخمی کرتی ہو۔

بتائیں کتنا عرصہ اس کو برداشت کریں گے۔۔ علاج کروانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔۔ ٹھیک نہ ہوئی تو قصاب کے حوالے۔۔ ہے نا۔۔

جی بالکل یہی اصول ہیں۔۔ اس کائنات میں۔۔ گھر کے چوہوں۔۔ لال بیگ۔ کھٹملوں سے لیکر گلی کے آوارہ کتوں تک۔۔ اور فصلوں کے کیڑوں اور سنڈیوں سے لیکر آسٹریلیا کے جنگلی اونٹوں اور خرگوشوں تک، اس دھرتی پر ایک ہی اصول ہے جو اس کائنات اس کے باسیوں اور اس نظام کے لیے مفید نہیں یا ذرا سا بھی تکلیف کا باعث ہے، اسے تلف کردیا جائے۔

اب اپنا سوچتے ہیں۔۔ کیا میں بحیثیت فرد اور بحیثیت معاشرہ۔۔ صبح اٹھنے سے لیکر رات سونے تک اس دھرتی، اس کے نظام، اس کے باسیوں کے لیے مفید ہوں، مجھ سے مخلوق کے لیے کوئی خیر کا کوئی بھلے کا کام ہورہا ہے۔۔ یا میں بھی صرف اپنی ذات اپنی ہوس اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے مصروف کار ہوں

اگر میرے روزوشب صرف میری ذات میرے کنبے کی بھلائی اور بہتری کے لئے صرف ہورہے ہیں تو بالیقین میں بھی اس بھینس کی طرح ہی ہوں، بے کار، بوجھ، صرف اناج کا دشمن۔۔ فضلہ بنانے کی مشین۔ اور اگر کہیں اس سے بھی بڑھ کر میں اپنی نوکری میں، اپنی دکان پر، اپنے کام سے دوسروں کے لیے۔۔ اللہ کی مخلوق کے لیے تکلیف، ۔ پریشانی کا باعث ہوں، تو۔

اگر ایسا نہیں تو اطمینان کی بات ہے۔ شکر کا مقام ہے۔ مگر دوسری صورت میں میں قوانین فطرت کہ زد میں ہوں۔۔ ایسے افراد یا بالخصوص معاشرے جو دھرتی پر بوجھ ہیں، اپنے لیے اور دوسروں کے لیے درد سر ہیں۔۔ ان کا معدوم ہونا طے ہے، فطرت کو کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا۔ اس کا وعدہ ہے کہ تمہاری جگہ دوسرے لوگ لے آؤں گا جو تم سے بہتر ہوں گے، مگر اطمینان کی بات یہ کہ ابھی مہلت تمام نہیں ہوئی۔

Check Also

Sahib e Aqleem e Adab

By Rehmat Aziz Khan