Insan Da Aqal
انسان دا عقل

اسی کی دہائی میں تختہ سفید پر لکھنے والے موٹی لکھائی والے ماکرر ایلومینیم ٹیوب کے بنے ہوتے تھے۔ ہم نے ایک استعمال شدہ ماکر میں دو سیل ڈالے اس کے سامنے کی طرف کھلونا گاڑیوں والا چھوٹا بلب لگایا اور اس کے اوپر کالے رنگ کے گڈی کاغذ کا کور چڑھا دیا۔ سیل کا نیچے والا منفی سرا ایلومینیم کے ساتھ لگ گیا اور دوسرے سیل کا مثبت بلب کے پوائنٹ کو لگ گیا۔ اب بلب کی سائیڈ سے باریک تار لپیٹ کر مارکرکے باہر کی طرف جوڑتے ہوئے اس کے پیندے سے متصل کر دی۔
اور مارکر اور تار پر سفید کاغذ لپیٹ دیا۔ یہ بن گیا ایک زبردست سا سگار۔ جیسے ہی ہم اس کو ہونٹ سے لگاتے تار پیندے سے مس کرتی اور بلب روشن ہوجاتا۔ اندھیرے میں بالکل ایسا لگتا تھا کہ سگار کے کش لگارہے ہیں۔
دادا ابو حیات تھے، سگریٹ نوش تھے، بوجہ نقاہت پیرانہ سالی سگریٹ خود سے نہیں لگاسکتے تھے۔ ہم بھائیوں میں سے کوئی لگا کر دیتا تھا۔ رات میں میں نے شرارتا سگریٹ کی جگہ یہ الیکٹرک سگار منہ سے لگایا، ماچس کی دیا سلائی جلائی پاس لاکر سگریٹ جلانے کی اداکاری کی اور دیا سلائی بجھا کر سگریٹ ان کو تھم دیا۔ انہوں نے کش لگایا سگریٹ روشن ہوا مگر دھواں نہیں بنا، پھر زور سے کش لگایا۔۔ نتیجہ وہی۔ غور سے اس کو دیکھنے لگے۔ تب میں نے بتایا کہ یہ سگریٹ نہیں بلکہ ٹارچ جیسا مصنوعی ہے۔ بہت ہنسے اور ساتھ ہی
انسان دا عقل انتہا تے پہنچ گیا اے۔
دادا ابو کا انتقال اٹھاسی میں ہوا تھا۔ اس وقت پورے کمرے جتنا مین فریم کمپیوٹر ہوا کرتا تھا، پی سی اس کے بعد آیا۔ موبائل فون کا تصور ابھی کم از کم پاکستان میں نہیں تھا۔ انٹرنیٹ، ای میل، میسیج واٹس ایپ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ اسی کی دہائی میں دنیا سے جانے والے اگر آج چالیس سال بعد دوبارہ زندہ ہوجائیں تو محض چالیس سال کی ترقی دیکھ کر حیرت سے شاید دوبارہ فوت ہوجائیں۔ مگر اس وقت بھی وہ یہ کہتے تھے
کہ انسان کا عقل انتہا پر پہنچ گیا ہے۔
لیکن اگر ہم آج دیکھیں تو سائنس کی ترقی کا رفتار سب سے تیز ہے۔ کوانٹم کمپیوٹرز تخیل سے حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں، فیول سیل ٹیکنالوجی انٹرنل کمبسچن انجن کی جگہ لینے کو تیار ہے، ڈرون ٹیکسیاں مستعمل ہوچکیں، ڈرائیور لیس کاریں سڑکوں پر ہیں، خلائی جہازوں کے بوسٹر راکٹ کا بار بار استعمال کرنے کا تجربہ تو ہوچکا۔ انسان کا بنا ہوا voyager 2 زمین سے بیس ارب کلومیٹر کے فاصلے سے تصاویر بھیج رہا ہے۔۔
ایک طرف قریب تیرہ ارب نوری سال کے فاصلے پر دہکتے ہوئے بلیک ہول کی تصاویر اتاری جاچکی تو دوسری طرف روشنی کی اکائی ذرے فوٹون کو بھی دیکھا جاچکا۔
خوردبینی جراثیموں میں انسانی اور شہد کی مکھیوں کے ڈی این اے کی پیوند کاری کرکے ان سے بالترتیب انسولین اور شہد لیا جارہا ہے۔ ایک ٹریلین فریمز پر سیکنڈ کے حساب سے تصاویر اتارنے والے فیمٹو کیمرے کے سلو موشن سے آپ روشنی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ درختوں کو باتیں کرتا ہوا سن لیا گیا ہے۔۔ اچھے برے الفاظ کا پانی پر رد عمل ریکارڈ کیا جاچکا ہے۔
چیونٹیوں کے سائز کے روبوٹ انسانی رگوں میں اتر کر خون کے راستے صاف کرنے کو تیار ہیں۔ جس کے بعد بائی پاس آپریشن کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ سٹیم سیلز ٹیکنالوجی سے کینسر ذیابیطس اور دل کے امراض کا مستقل شافعی علاج بس ہوا ہی چاہتا ہے، آواز کی رفتار سے چار گنا رفتار والے Yunxing یونسنگ جہاز کا تجربہ کیا جاچکا۔ انسانی دماغ میں کمپیوٹر چپ کی تنصیب کے بعد بنا ہاتھ لگائے صرف تخیل سے کمپیوٹر کا ماؤس کنٹرول کیا جا چکا ہے۔
اور میں پھر سے دادا ابو کے الفاظ دل میں دہرا رہا ہوں۔۔
انسان دا عقل انتہا تے پہنچ گیا اے
مگر مجھے یقین ہے میرے بچے اگلے چالیس نہیں محض دس سے پندرہ سال بعد ہی آج کی ایجادات اور ان پر میرے اس فقرے پر ہنس رہے ہوں گے جس طرح آج ہم ان کے محض ایک الیکٹرک سگار پر ایسا کہنے پر ہنس رہے ہیں۔
اس گفتگو سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ترقی ہوتی رہی ہے ہورہی تھی اور ہوتی رہے گی جس کا مطلب ہے انسانی علم ناقص تھا، ناقص ہے اور ناقص رہے گا۔
تو پھر کامل کیا ہے؟

