Herat Hoti Hai Wallah
حیرت ہوتی ہے واللہ
تشہیر کاروبار کی کامیابی کی کلید ہے۔ کمپنیاں کروڑوں روپے ماہانہ خرچ کرتی ہیں، اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر بالخصوص فب، انسٹاگرام اور تویٹر پرہم روزانہ درجنوں اشتہاری پوسٹ دیکھتے ہیں۔ فب پر آپ اگر پانچ ہزار کی تشہیری مہم چلاتے ہیں تو وہ قریب پچیس ہزار لوگوں کو آپ کا اشتہار دکھاتا ہے۔ اس دیکھنے کی عمر ایک سیکنڈ سے چند سیکنڈز تک ہوتی ہے۔ جیسے ہی ہمارے سامنے کوئی اشتہار آتا ہے، اگر ہمیں اس میں دلچسپی نہیں تو ہم فوراً انگوٹھے کی ایک جنبش سے اسے نظروں سے دور کردیتے ہیں۔ لیکن فب اس ثانیہ کو بھی گن لیتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ ہم نے آپ کا اشتہار اتنے لوگوں کو دکھایا۔
ہم مالٹا ریل میں داخل ہوئے، بیس منٹ سفر کیا ہمارے سامنے خوبصورت ایل ای ڈی لگی تھی۔ اس پر مالٹا ریل سے متعلق ایک بے مقصد سی ڈاکومنٹری چلتی رہی۔ دوران سفر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد جب ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں بچتا تو ہم مجبوراً پھر سے سکرین پر دیکھنے لگتےہیں۔ پھر کوفت ہوتی ہے، پھر ادھر ادھر دیکھتےہیں۔ اترے ہوئے، ستائے ہوئے چہرے کوئی کب تک دیکھے؟ پھر سے سکرین پھر سے بوریت۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ڈھائی لاکھ لوگ روزانہ مالٹا ریل پر سفر کرتے ہیں۔ کم سے کم اوسطاً دورانیہ دس منٹ بھی رہا ہو، سوچیں کتنے اشتہار ہم لوگوں کو دکھا سکتے ہیں؟ فب تو ایک سیکنڈ کے بائیس پیسے فی کس لے رہا ہے۔ آپ ایک روپیہ فی منٹ فی کس کا اندازہ لگائیں تو پچیس لاکھ روپے روزانہ بنائے جاسکتے ہیں۔ پچیس بھی چھوڑیں دس لاکھ ہی سہی۔ سالانہ چھتیس کروڑ اکٹھا ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح سارے سٹیشنز پر باہر، اندر سینکڑوں جگہوں پر بڑے، چھوٹے بورڈ لگائے جاسکتے ہیں۔ جن سے سالانہ کروڑوں کی آمدن ہوسکتی ہے۔ کچھ خسارہ تو کم ہوگا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن سے ہم یہ بنوائی ہے، ان کے اپنے چین میں ہر وقت ان سکرینوں پر مختلف مصنوعات کے اشتہار چلتے ہیں۔
اگر بالفرض کسی حکیم نے منع کیا ہے یہاں سے کمائی نہیں کرنا تو بھی ان سکرینوں پر لوگوں کی بھلائی کے لیے ان کو ہنر اور تعلیم کرنے کے کوئی تحریکی تقریر یا ڈاکومنٹری لگادیں۔ سنگاپور میں ہروقت حادثات سے بچاؤ اور ہنگامی حالت میں جان بچانے کےلیے کیے جانے والے اقدامات کی تشہیر ہوتی رہتی ہے۔ حالانکہ وہاں کبھی نہ کوئی دہشت گردی ہوئی اور نہ ہی حادثات بہت زیادہ ہوتے ہیں پھر بھی وہ ہر دستیاب ذرائع سے اپنے لوگوں کی تربیت کرتے رہتے ہیں۔
ایک طرف تو انتہائی ضروری کاموں کے لیے وسائل نہیں اور دوسری طرف دستیاب وسائل کی ایسی بے توقیری۔ حیرت ہوتی ہے واللہ۔