Hasrat e Sakheef
حسرت سخیف
آپ شہر کی بے ہنگم ٹریفک میں آڑھی ترچھی گاڑی چلاتے بمشکل تمام کسی طور موٹروے پر پہنچ جاتے ہیں۔ اب کیا ہے۔ سب لوگ قطار اندر قطار گاڑیاں چلا رہے ہیں۔ بہت کم ہیں لوگ ہیں جو الٹی طرف سے اوورٹیک کرتے ہیں۔ رفتار کی حد پار کرنے والے بھی رفتار کیمروں سے خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں۔ سیٹ بیلٹ کے بنا گاڑی چلانے کا تصور بھی نہیں۔ ایک بے ترتیب معاشرہ میں ایک شاہراہ پر ایسے عمدہ نظم ونسق کی وجہ کیا ہے؟
سب احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر کوئی خلاف قانون حرکت کرتے ہوئے آپ کو روک لیا گیا ہے تو آپ کو یقین ہوگا کہ سوائے جرمانہ ادا کیے اب کوئی چارہ نہیں کیونکہ یہاں نہ رشوت چلے گی نہ سفارش۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ہمارے مشاہیر ٹی وی پروگراموں میں کہتے ہوں کہ رشوت دیے بنا کام نہیں ہوتے اس اعتقاد کی وجہ کیا ہے؟
وطن عزیز کا بگڑے سے بگڑا رئیس زادہ جو قطار میں کھڑا ہونا اپنی توہین سمجھتا ہے، جب کسی اجنبی سرزمین پر قدم رکھتا ہے تو ہوائی اڈے سے ہی انتہائی شرافت اور سکون کے ساتھ لائن میں لگا اپنی باری کا انتظار کررہا ہوتا ہے۔۔ وجہ کیا ہے؟
ماحول، ان سب سوالوں کا جواب ہے۔ ماحول قانون کے رعب اور سزاؤں کے خوف سے بھی بن سکتا ہے اور چاہت، لگن اور محبت سے بھی۔ دوسروں کو اچھا کرتا دیکھ کر بھی بن سکتا ہے اور اساتذہ یا والدین کی تربیت سے بھی۔۔ مگر یہ بات طے ہے کہ کسی بھی کام کیلیے سازگار ماحول کی غیر موجودگی میں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو لمبے عرصہ تک خود کو درست راستہ پر رکھ پاتے ہیں۔
ہم چین جاتے ہیں۔ پندرہ، بیس دن میں چار پانچ کلو وزن کم ہوجاتا ہے۔ کیونکہ وہاں مرغن کھانوں کا ماحول ہی نہیں۔ سب جگہ ابلی سبزیاں اور صحت بخش کھانے ہی ملتے ہیں۔ دودھ والی چائے کا تصور بھی محال ہے۔ لہذا چاہتے ہوئے بھی غیر صحت بخش مرغن غذا نہیں کھا سکتے۔ لیکن جب وہاں سے لوٹتے ہیں تو جتنا چاہیں زور لگالیں، جیسی چاہے پابندی کی آرزو کریں ویسا معمول نہیں اپنا سکتے۔ کیونکہ سوائے گھر کے کہیں بھی آپ کو ویسا کھانا دستیاب ہی نہیں۔ کیونکہ ویسا ماحول نہیں سو ماہ دو ماہ میں پھر وزن پہلے جیسا ہوا ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں ترقی کے لئے ضروری اطوار کا ماحول بالکل بھی نہیں۔ وقت کی پابندی کا تصور ہی نہیں، صبح خیزی عنقا ہے۔ بازار گیارہ بجے سے پہلے نہیں کھلتے، بروقت مال کی عدم فراہمی، وعدوں کی پاسداری نہ کرنا تو بالکل عام سی باتیں ہیں۔ سب سے ضروری بات اپنے معاملات پر بالخصوص معاشی اور بالعموم معاشرتی، اس قدر غور ہی نہیں کیا جاتا جتنا کہ ہونا چاہیے۔
تعلیمی اداروں میں سوچنے، سمجھنے سیکھنے اور تخلیق کرنے کی بجائے یاد کرنے اور ہوبہو نقل کرنے کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کیا پڑھنا چاہیے اور کیا سیکھنا چاہیے بنا سوچے سمجھے سب ایک ڈگر میں میٹرک ایف اے بی اے کرتے جارہے ہیں۔ اور پھرہر جا بے روزگاروں کی فوج مایوسی کا پرچار کرتے ہوئے ملتی ہے۔ نہ پڑھنے والے نے سوچا کہ کیوں پڑھ رہے ہیں نہ پڑھانے والوں نے۔۔ کیونکہ سوچنے کا غور کرنے کا ماحول ہی نہیں۔ اگر کوئی ہزاروں میں سے ایک کوئی نئی بات کرتا ہے تو باقی سب کو اپنا مخالف پاتا ہے۔
کارخانوں میں، اداروں میں محنت اور مسابقت کا ماحول نہیں، تن آسانی اور حسد کا چلن ہے۔ جس کی وجہ سے نہ مالکان مطمئن ہیں نہ۔ مزدور آسودہ حال۔ عام زندگی میں بھی مثبت طریقے سے آگے بڑھنے کی بجائے شارٹ کٹ ٹو سکسس اور منفی ذرائع پر بھروسہ کرنا آسان لگتا ہے کیونکہ اس کا ماحول ہے۔ مگر یقیناً اس منفی ماحول کے ساتھ چیدہ چیدہ لوگ تو ترقی کرسکتے ہیں ہم بحیثیت قوم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اپنے اجتماعی مسائل سے نبردآزما نہیں ہوسکتے۔
معاشرے میں مثبت ماحول بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ لیکن زیادہ ذمہ داری اساتذہ اور بڑے لوگوں کی ہے جن کی لوگ پیروی کرتے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ قومی راہنماؤں اور سرکار کی۔ کہ اس کے پاس وسائل کی بھی فراوانی ہے۔ مگر جب تک سرکار کو اس کی اہمیت کا احساس نہیں ہوجاتا آئیں ہم سب ملکر اپنے ماحول کو بہتر بنائیں۔
ہم وعدہ کریں کہ ہم غوروفکر کی عادت اپنائیں گے۔ کامیابی کیلئے مثبت طریقے اختیار کریں گے، لوگوں کے راستہ کی رکاوٹ بننے کی بجائے ان کی مدد کریں گے۔ محنت کو شعار بنائیں گے اور اپنے حصہ کاکام پوری توجہ اور ایمانداری سے کریں گے۔ اگر پچیس فیصد لوگ بھی ان اطوار پر عمل پیرا ہوجائیں تو باقی لوگوں کے لیے کوئی جواز نہ ہوگا۔ خود بخود ایک زبردست ماحول زبردست معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔ دوستوں کو دعوت فکروعمل ہے۔