Har Baar Mere Sath Hi Aisa Kyun Hota Hai
ہر بار میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے
ہمارے گھر کا فرنٹ پچاس فٹ ہے اور جس گلی کے تقریباً آغاز میں ہی ہمارا گھر اس میں تقریباََ چالیس گھر ہوں گے۔ ہر گھر میں اوسطاً ایک موٹر سائیکل اور ایک گاڑی ہے۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ گاڑی دن میں کم از کم ایک بار اور موٹر سائیکل دو بار گھر سے باہر جاتی اور آتی ہے۔ گویا کل ملا کر سب سواریاں دن میں لگ بھگ دو سو چالیس بار ہمارے دروازے کے سامنے سے گزرتی ہیں۔ اگر گلی میں سے گزرنے کی رفتار پندرہ کلومیٹر فی گھنٹہ رہی ہو تو ایک بار کے گزرنے میں 3.66 سیکنڈز صرف ہوں گے۔ گویا کل ملا کر چوبیس گھنٹے میں صرف ساڑھے چودہ منٹ سواریاں ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتی ہیں۔
دوسری طرف میں گیٹ کھول کر گیراج سے گاڑی نکال کر گلی میں کھڑی کرتا ہوں، گاڑی سے اترتا ہوں گیٹ بند کرکے دوبارہ گاڑی میں بیٹھتا ہوں تو مجھے قریب ڈیڑھ منٹ لگتا ہے۔ گویا صبح جانے اور شام آنے کا ملا کر تین منٹ۔ اب دیکھیں چوبیس گھنٹے میں ساڑھے چودہ منٹ گاڑیاں گزرتی ہیں اور چوبیس گھنٹے میں صرف تین منٹ میں ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہوں۔ لیکن ایسا کبھی شاید ہی ہوا ہو کہ جب میں گاڑی نکال رہا ہوں یا واپس گھر میں کھڑی کررہا ہوں۔ تو کوئی نہ کوئی دوسری گاڑی یا موٹر سائیکل آکر نہ رکے، کہ جسے میری وجہ سے کچھ لمحات کے لیے رک کر انتظار کر پڑے۔۔
مجھے اس عمل سے سخت کوفت ہوتی ہے کہ میں کسی کے لیے کسی قسم کی آزردگی کا باعث بنوں تو ہر وقت خیال کرتا ہوں کہ اس ڈیرھ منٹ میں کوئی نہ آئے تاکہ مجھے خفت نہ اٹھانا پڑے، لیکن ایسا ہفتے میں ایک آدھ بار ہی ہوتا ورنہ روزانہ دونوں بار لوگوں کو رکنا پڑتا ہے۔ اس بات کو لیکر میں اچھا خاصہ متفکر رہتا تھا کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے۔ کیا سارا وقت لوگ منتظر رہتے ہیں کہ کب میں گھر سے نکلنے یا داخل ہونے لگوں تو وہ فوراََ آجائیں کہ مجھے کوفت کا سامنا کرنا پڑے یا پھر کوئی تقدیر کا ہیر پھیر ہے۔ یہاں تک ایسے وسوسے آنا شروع ہوگئے کہ شاید میں فطرت کے لیے کوئی ناپسندیدہ شخصیت ہوں کہ میری ذہنی کوفت کے لیے فطرت ہر روز خصوصی انتظام کرتی ہے۔
آخر جب مسئلہ حد سے بڑھا تو میں نے علم کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا۔ انجینئرنگ میں ہم نے پرابیبیلیٹی کا صرف تعارف پڑھا تھا سو میں خود اس کی بنیاد پر کسی قسم کی کیلکولیشن نہیں کرسکتا مگر چیٹ جی پی ٹی نے میرا مسئلہ چٹکی بجاتے ہی حل کردیا۔
میں نے اس سے جو سوال پوچھا وہ یہ رہا
If 240 times different vehicles pass in front of my house having front of 50 feet, in 24 hours, 90 percent of those between 8 am to 8 pm and I take 1.5 minute to get my car out of my garage at about 9 am and same time to get back in at 7 pm، what is the probability that I face car passing. Provided that the speed of vehicles is 15 km per hour.
حساب کے مطابق اگر صبح آٹھ بجے سے شام آٹھ بجے تک بالکل برابر وقفے سے نوے فیصد سواریاں گزریں تو ہر تیسری بار میں ایک ٹکراؤ ہوگا۔ اب یقینی طور پر صبح آٹھ سے دس بجے اور شام پانچ سے آٹھ بجے کے درمیان زیادہ سے زیادہ لوگ کام کے لیے یا سکول وغیرہ کے لیے نکلتے ہیں۔ تو یقینی طور پر ان اوقات میں امکان اور بھی زیادہ ہوگا۔ نیز گلی کے سب گھروں میں دودھ دینے بھی آتے ہوں گے، سبزی اور خوانچہ فروش اور مہمان وغیرہ بھی تو میرا ہفتہ بھر میں نو دس بار کسی نہ کسی سواری سے واسطہ پڑنا عین منطقی ہے۔ مطلب میں فطرت کا ناپسندیدہ شخص بالکل بھی نہیں ہوں۔ ظاہر ہے کہ فطرت کو کیا پڑی ہے کہ اتنی بڑی اربوں نوری سال کی کائنات میں صرف مجھ بندہ ناچیز سے دشمنی ڈال لے۔
میری زندگی میں تو اس حساب کتاب کے بعد سکون ہے۔ تو اگلی بار جب آپ بھی کسی ٹریفک جام میں پھنس جائیں اور یہ وسوسے آئیں کہ ساتھ والی لین تیز چل رہی، یا کبھی لفٹ میں سوار ہوں اور برقی رو منقطع ہوجائے تو یہ مت سوچیں کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔ بلکہ یقین رکھیں کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے سب قوانین فطرت کے تحت ہورہا ہے یہاں نہ کوئی منحوس ہے اور نہ کوئی لکی۔