Haqooq Ki Bheek Mangti Chuntiyan
حقوق کی بھیک مانگتی چیونٹیاں
شمالی لاہور میں واقع یہ پاکستان کا سب سے بڑا غیر اعلانیہ صنعتی علاقہ داروغہ والا ہے۔ ہزاروں صنعتیں دن رات کام کرتے ہوئے ملکی معیشت کی بحالی میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ لاکھوں ہنرمندوں کا سلسلہ روزگار ان صنعتوں سے وابستہ ہے۔ اربوں روپے کے بلاواسطہ اور بالواسطہ سرکاری محاصل کے حصول کا ذریعہ ہے۔
لیکن بارش کی پہلی بوند کے ساتھ ہی دھماکوں کی چند آوازیں آتی ہیں اور علاقے میں موجود تین چار گرڈ سٹیشنوں کے درجنوں فیڈر بند ہو جاتے ہیں۔ کہیں تاریں گر جاتی ہیں، کہیں ٹرانسفارمرز کو سردی لگ جاتی ہے۔ کہیں کوئی وجہ تو کوئی، بڑی فیکٹریوں میں سارا برقی انتظام دیوالیہ ہوتی معیشت کے قیمتی زرمبادلہ سے درآمدی ڈیزل پر چلنے والے جنریٹرز سنبھال لیتے ہیں جب کہ چھوٹی صنعتوں کے ملازمین گلیوں میں گلی ڈنڈا کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔
پچھلے دس دن میں جب سے بارشوں کا سلسلہ جاری ہے شاید ہی کوئی فیڈر ایسا ہو جس کو دن بھر چار گھنٹے ہی برقی رو دستیاب ہوئی ہو۔ ملکی معاشی حالات نے پہلے ہی صنعتکاروں کی کمر توڑ رکھی ہے اس پر یہ ظلم مزید ادھ موا کیے ہوئے ہے۔ بارہا احتجاج کیا، جو محتاط ترین خبر ملی وہ یہ کہ گرڈ سے فیڈر آؤٹ کرنے کے لیے جو انسولیٹڈ تاریں استعمال کی جاتی ہیں ان کی خریداری میں، باقی تمام اشیاء کی خریداری کی طرح زبردست گھپلے کیے جاتے ہیں۔
جس کے سبب انتہائی غیر معیاری تاریں میسر آتی ہیں جو بارش کی چند بوندیں بھی برداشت نہیں کرپاتی شارٹ سرکٹ کے باعث فیڈر ٹرپ کر جاتے ہیں۔ اندازہ کریں کہ مالی بدعنوانی انسان کو کس قدر بے حس بنا دیتی کہ جتنا فائدہ ایک بار کی خریداری میں چند افسران نے کمایا ہوگا اس سے کہیں زیادہ کا روزانہ کا نقصان صنعت اور ملک کا ہورہا ہے۔ اور اس پر تکلیف کی بات یہ کہ کسی ادارے یا ذمہ دار کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی کہ اس انتہائی پریشان کن صورت حال کا سدباب کریں۔
میرے صنعتکاروں اور مزدوروں کی زندگی میں تیرگی شبِ فراق بھرنے والے صرف وہ افسران ہی نہیں جو بدعنوانی کے مرتکب ہو کر ناقص سامان خریدتے ہیں، وہ ملازمین بھی ذمہ دار ہیں جو محکمہ کی طرف سے مہیا کی گئی آدھی تار خورد برد کرکے صرف ادھی ادھوری تاریں ڈال جاتے ہیں۔ اس المیے کی خالقین میں وہ مہربان بھی شامل ہیں جو تن آسانی کی وجہ سے درست کام نہیں کرتے اور وہ بھی میں جان بوجھ کر بجلی کی ترسیل میں حائل نقائص مکمل طور پر درست نہیں کرتے کہ اگلی بار جب تار ٹوٹے گی تو دوبارہ خرچہ پانی ملے گا۔
یہ بے حسی، نااہلی اور بدعنوانی اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ صنعتکار بقاء کی جنگ ہار رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ صنعت کا یہ ڈوبتا جہاز سب کو ساتھ لے کر ڈوب جائے۔ بہت سے صنعتکار تو پہلے ہی دوسرے ملکوں کو ہجرت کر چکے اس سے پہلے کہ برباد ہوتے بچے کچے صنعتکاروں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو جائے۔ اس سے پہلے کہ رحم کی، انصاف کی، حقوق کی بھیک مانگتی یہ چیونٹیاں اقتدار کے بدمست ہاتھیوں کہ سونڈوں میں گھس جائیں۔ ان کی بات سن لیں، ان کے مسائل حل کردیں۔ اسی میں سب کا بھلا ہے۔