Gur, Gurahat
گُڑ، گڑاہٹ
آج کل سماجی زرائع ابلاغ پر گُڑ کی گُڑگڑاہٹ بہت زیادہ ہے۔ ہم بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکے۔ سوچا آپ کو بتادیں کہ گڑ پیلے بھورے رنگ کے ان بے ڈھنگے میٹھے ٹکڑوں کو کہتے ہیں جو گنے کے رس کو بڑے بڑے اور گندے گندے کڑاہوں میں گرم کرکے حاصل کیا جاتا ہے۔ شاید روٹی اور تہمد کے بعد یہ آخری ایجاد ہے جس کا سہرا ہم اہل برصغیر کے سر ہے۔ کہتے ہیں تین ہزار سال پہلے اس خطے کے حکیم اپنی ادویات میں گڑ کا استعمال کرتے تھے۔
گمان فاضل ہے کہ حکماء مریضوں کے پیٹ میں ہورہی گُڑگُڑ کے علاج کیلئے اسکا استعمال کرتے ہوں گے اس لیے اس کا نام گُڑ پڑ گیا ہوگا۔ ہمیں لگتا ہے کہ گڑ کی بطور میٹھا استعمال سے پہلے گنا ہتھیار کے طور پراگایا جاتا ہوگا۔ گویا گڑ سے پہلے یہ درگت بنانے کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ اور عین ممکن ہے تب کسی گنئی جنگ میں اس کا جوس نکل کر حادثاتی طور پر کسی فوجی جوان کے منہ میں چلایا ہو اور وہ جنگ چھوڑ کر رس پینے لگ گیا ہو۔ ویسے مایوس دقیانوسی کا خیال ہے کہ بہت سے فوجی اب بھی جنگ کی بجائے رس کے ہی رسیا ہیں۔
آزاد روشن خیالوی کہتے ہیں گڑ اتنی اچھی چیز ہے کہ اس کا استعمال ہمارے شعراء بھی اپنے شعروں میں کرتے آئے ہیں۔ ارے واہ۔۔ کونسا شعر بھلا۔۔ ہم نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔ وہ اکبر الہ آبادی کا مشہور شعر اپنے سنا نہیں۔۔
بے پردہ جو نظر آئیں کل چند بیبیاں
اکبر زمین میں غیرت قومی سے گُڑ گیا۔
آپ کے گُڑ میں کچھ گڑبڑ ہے۔۔ ہم نے اظہار تاسف کیا کہ کاش آپ نے یہ شعر پڑھنے کی بجائے سنا ہوتا
قابل خرگوشوی کہتے ہیں گنے میں بہت سے نمکیات، جیسے کیلشیم، میگنیشیم، آئرن، کاپر زنک۔ میگنیز اور فاسفورس وغیرہ ہوتے ہیں اس کے ساتھ لحمیات، حیاتین، فائٹوکیمیکلز اور اینٹی آکسیڈنٹس کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جو انسانی صحت، مدافعت اور نشوونما کیلئے بہت ضروری ہے۔ یہ سب اشیاء گڑ میں تو منتقل ہوجاتی ہیں مگر چینی میں بالکل نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ گڑ میں سکروز کے علاوہ فرکٹوز اور گلوکوز ھی ہوتا ہے۔ جو ہر لحاظ سے چینی سے مفید میٹھا ہے۔
یہ بات کسی حد تک درست مگر افسوس ناک ہے کچھ لوگ گڑ کو سفید اور خوبصورت کرنے کے چکر میں اس میں رنگ کاٹ اور چونے کا پانی اور اسے نرم۔ کرنے کیلئے میٹھا سوڈا ملاتے ہیں جس سے گڑ مفید ہونے کی بجائے الٹا نقصان دہ ہوجاتا ہے۔ گو کہ چینی بنانے کے دوران بھی چونے کا پانی اور دیگر کیمیکلز ملائے جاتے ہیں مگر اس عمل میں اور گڑ بنانے کے عمل میں بہت فرق ہے۔ چینی بننے کے دوران عمل قلماؤ یعنی crystallisation کا عمل ہوتا ہے جس میں خالص چینی کے کرسٹلز بنتے ہیں اور باقی تمام کثافتیں شیرے میں رہ جاتی ہیں۔ جبکہ گڑ بنانے میں سارے کے سارے کیمیکل گڑ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے احتیاط بہت ضروری ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگ بھنڈی کے تنے کا پانی اور گاؤ بان کے خشک پتے گڑ کی صفائی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ بھنڈی کے تنے میں قدرتی طور پر پیکٹین اور واٹر سالوبل پیکٹک ہائیڈرو کولائڈز موجود ہوتے ہیں جو گڑ میں موجود ٹھوس ذروں کو صاف کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ اور اگر اس کی کچھ مقدار گڑ میں رہ بھی جائے تو بھی وہ صحت کے مفید ہے۔ گاؤ بان کے پتے بھی زبردست فلیونائیڈز رکھتے ہیں۔ جن کا نقصان نہیں اور فائدہ بہت ہے۔ لہذا ان سے بنا گڑ جس کی نشانی یہ ہے کہ یہ ہلکا سبزی مائل ہوتا ہے ہر طرح سے مفید ہے۔
حکیم حاذق کہتے ہیں کیمیکل والا زہریلا گڑ شاہد مہربانوں نے اس حسینہ کی آخری خواہش پورا کرنے کیلئے ایجاد کیا ہے جو کسی فلم میں بات بات پر ہنس کر کہتی۔ ہائے ہائے۔۔ میں مرجاواں گڑ کھاکے۔ مگر آپ اس کی باتوں میں مت آئیے۔ کیمکل سے پاک سبزی مائل بھورے رنگ کا گڑ استعمال کریں۔