Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Ghair Pahari Hiking

Ghair Pahari Hiking

غیر پہاڑی ہائکنگ

یونیورسٹی میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں، وسط جون ہوگا سال شاید انیس سو نوے۔ ہمارے ایک ہم جماعت تھے، خالد بھائی، گجرات میں رہتے تھے، ان سے ملنے گئے۔ وہاں ایک اور ہم جماعت ضمیر بھائی پہلے سے موجود تھے راولپنڈی سے آئے تھے۔ کچھ دیر خوش گپیاں رہیں تب کسی نے کہا کھوکھر سے ملنے چلتے ہیں۔ کھوکھر صاحب نظام آباد میں رہتے تھے۔ گھوڑوں ٹانگوں کا دور تھا۔ کچہری چوک سے ٹانگے پر بیٹھے اور جی ٹی روڈ پر بس اڈہ کے سامنے اتر گئے۔

ابھی اڈے میں داخل بھی نہ ہوئے تھے، کہ ہمارا سفر کا ہمدم دیرینہ وہی چھوٹا شیطان آگیا۔ کہنے لگا ہائکنگ کیا صرف پہاڑوں پر ہی واجب ہے۔ اس خوبصورت زرخیز خطے کا کیا قصور کہ یہاں پیدل سفر نہیں کیا جائے۔ بات میں کشش تھی۔ ہم فوراً مان گئے۔ باآواز بلند تخیل شیطانی دہرایا " پیدل چلتے ہیں۔ "

آن کی آن میں دونوں ہمسفر راضی ہو گئے۔ جون کا مہینہ۔ دوپہر کے واقعی بارہ بجے تھے۔ تینوں جوان پیادہ پا جانب منزل روانہ ہوئے۔

جوانی دیوانی۔ شکر دوپہر تقریباً اٹھارہ کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے ساڑھے تین یا چار بجے ہم کھوکھر صاحب کا دروازہ کھٹکھٹارہے تھے۔ جاتے ہی فرشی قالین پر ڈھے گئے۔ خوب آؤ بھگت کی گئی۔ کھانا کھایا۔ حالت زار کی بابت پوچھا تو بتایا کہ پیدل تشریف لائے ہیں۔ انہوں نے ماننے سے صاف انکار کردیا۔ ہر طرح سے یقین دلانے کی کوشش کی مگر بےسود۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہی صورت ہے ہم ساتھ جائیں گے اگر آپ چلتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں جاتے۔

لیجئے صاحب۔ ہم پھر سے تیار۔ خالد بھائی چکمہ دے گئے۔ کہیں کہ ہم بس سے جاتے ہیں آپ کےلیے کھانے وانے کا بندوبست کرتے ہیں آپ یقین دلاکرآئیں۔ ہم سات، آٹھ بجے نکلے۔ جیسے ہی وزیر آباد سے آگے نکلے اندھیرا گپ۔ تھکاوٹ بھی خوب۔ مگر۔ جانا تو تھا۔

وزیر آباد سے آگے ایک بہت متروک سڑک تھی اس سے کچھ شارٹ کٹ تھا، آجکل وہاں پارک بنادیا گیا ہے، ہم نے اختصار کے لالچ میں وہی راستہ چنا۔ ادھر ایک صاحب ملے۔ کہنے لگے اس طرف سے مت جائیں۔ ڈاکو ہوتے ہیں بہت پریشان کریں گے۔ ہم نے سوچا ہمارے پاس لٹانے کو تو کچھ نہیں، یہیں تھوڑی بہت پریشانی بھگت لیں گے، جبکہ لمبے راستے سے گئے توتھکاوٹ سے فوت ہی ہوجائیں گے۔ لہذا اسی پر چلتے رہے۔

دریا کے قریب اس علاقے میں بہت جھاڑیاں اور سبزہ تھا مگر دور دور تک کوئی انسان نہیں۔ شاید اماوس کی رات تھی، سو خوب اندھیرا تھا اور ہم تین نوجوانانِ آشفتہ ومجنون۔ کچھ آگے بڑھے تو عجیب منظر، ہر طرف جگنو ہی جگنو۔ بے تحاشہ جگنو۔ انسانوں کی دستبرد سے دور شاید یہ جگہ جگنوؤں کی پسندیدہ علاقہ تھا۔ ناقابل یقین مناظر جو دوبارہ کبھی نہیں دکھے۔ سفر کی ساری مشقت مع منافع وصول ہوگئی۔

آہستہ آہستہ چلتے گھسٹتے بالآخر ہم رات بارہ بجے خالد بھائی کے گھر پہنچے۔ بنا کسی تیاری یا پیشگی منصوبہ بندی کے بارہ گھنٹے میں کل ملا کر چھتیس، سینتیس کلومیٹر پیدل چلے ہوں گے۔ کھوکھر صاحب سے پوچھا یقین آگیا۔ نہیں تو آپ کو واپس چھوڑ آتے ہیں۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan