Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Fruit Concentrate

Fruit Concentrate

فروٹ کنسنٹریٹ

ہمارا روزانہ کا مشاہدہ ہے کہ پھلوں کے پیک سیزن میں ان کی اس قدر بہتات ہوجاتی ہے، کہ دستیابی طلب سے بہت بڑھ جاتی ہے۔ تب ان کی قیمت فروخت منڈی میں اس قدر گر جاتی ہے، کہ بسا اوقات تو ان کو، اس قیمت پر بیچنے سے کسانوں کے پیداواری اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے۔ ایسے میں ان پھلوں سے کماحقہ معاشی یا غذائی فوائد حاصل کرنے کے لیے، انہیں کسی بھی طریقے سے لمبے عرصے تک محفوظ کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔

پرانے وقتوں میں پھلوں کو دھوپ میں خشک کرکے محفوظ کیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ اب تک استعمال ہوتا ہے۔ لیکن آج جدید علم نے پھلوں کو خشک کرنے کے علاوہ بھی کئی طریقوں سے محفوظ کرنا ممکن بنادیا ہے۔ ان میں ایک طریقہ یہ کہ جوس والے پھل جیسے، کینو، مالٹا، انگور، انار وغیرہ کا جوس نکال کر اور گودے والے پھل جیسے سیب، آم، سٹرابیری، آڑو، فالسہ وغیرہ کا گودا نکال کر انہیں محفوظ کیا جاتا ہے۔

ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ پھلوں میں پچہتر سے نوے فیصد تک پانی ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر ان پھلوں کے جوس یا گودے کو محفوظ کیا جائے، اور اس محفوظ شدہ گودے یا جوس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جائے، تو ان کی پیکنگ اور آمدورفت میں پھل کے کارآمد جزو سے، کہیں زیادہ قیمت اس پانی کی پڑجاتی ہے جو اس میں موجود ہوتا ہے۔

اس مسئلہ کا سائنس نے بڑا ہی آسان اور زبردست حل پیش کیا ہے۔ پھلوں کے جوس اور گودے میں موجود بہت سا پانی خشک کردیا جاتا ہے۔ عام طور پر پانی کی اس قدر مقدار اس میں سے نکالی جاتی ہے، کہ گودا یا جوس چھ کلوگرام کا، ایک کلوگرام رہ جائے۔ یعنی چھ کلوگرام گودے اور پھل میں سے پانچ کلو پانی اڑا دیا جاتا ہے۔ اس گاڑھے یا مرتکز جوس کو "جوس کنسنٹریٹ" اور گودے کو فروٹ پیوری یا "فروٹ کنسنٹریٹ" کہا جاتا ہے۔

جوس کنسنٹریٹ میں بوقت ضرورت دوبارہ پانی ملا کر، بالکل اصل جوس جیسا جوس دوبارہ حاصل کرلیا جاتا ہے۔ اور وہ بھی ایک کلو گرام سے چھ کلوگرام۔ جب کہ فروٹ کنسنٹریٹ کو جام، کیک، کسٹرڈ یا دوسرے کھانوں کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو اس طرح بھی کھایا جاسکتا ہے۔ جو بہت ہی میٹھا اور لذیذ ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ کنسنٹریٹ کیسے بنایا جائے۔ تو یہ ہم سب جانتے ہی ہیں کہ، بیشتر پھلوں کو اگر اسی ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت پر گرم کیا جائے، تو ان میں موجود غذائی اجزاء ضائع ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ان میں موجود غذائی اجزاء کو بہتر طریقے سے محفوظ کرنے کےلیے، پانی اڑانے کا سارا عمل، ساٹھ سے ستر ڈگری سینٹی گریڈ تک کیا جاتا ہے۔ اس درجہ حرارت پر نہ صرف یہ کہ پھلوں میں موجود تمام غذائی اجزاء محفوظ رہتے ہیں، بلکہ ان کا رنگ اور خوشبو بھی بالکل اصل حالت میں موجود رہتی ہے۔

مگر ساٹھ یا ستر ڈگری سینٹی گریڈ پر پانی کو اڑایا کیسے جائے؟ جب کہ اس کا نقطہ کھولاؤ تو سو ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ سوال کا جواب ہے ویکیوم، نقطہ کھولاؤ سے کم درجہ حرارت پر پانی اڑانے کے لئے ہمیں ویکیوم کا سہارا لینا پڑتا ہے، کیونکہ ویکیوم میں پانی یا دوسرے مائع جات کم درجہ حرارت پر اُبلنا شروع کردیتے ہیں۔ فوڈ گریڈ سٹین لیس کے بنے ایک بہت بڑےبرتن میں جوس یا گودا ڈال کراسے بند کرنے کے بعد، اسے ویکیوم پمپ سے منسلک کردیا جاتا ہے۔ جبکہ اندر کا درجہ حرارت مطلوبہ ہدف تک رکھنے کے لیے، برتن کی باہر کی طرف جیکٹ میں بھاپ یا گرم تیل چلایا جاتا ہے۔

جوس یا گودے کی نوعیت یا مقدار کے لحاظ سے، اور پلانٹ کی استعداد کے مطابق آدھ گھنٹے سے دس گھنٹے میں، کنسنٹریٹ کا ایک بیچ تیار ہوتا ہے۔ اس کنسنٹریٹ کو حسب ضرورت پلاسٹک کے ڈرموں، بوتلوں یا ٹن پیکنگ میں پیک کرکے دکانوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ٹماٹر کی پیسٹ یا پیوری بھی بالکل اسی طریقہ اور اسی پلانٹ پر تیار کی جاتی ہے۔

پاکستان میں یہ کام انتہائی ابتدائی سطح پر ہے، سرگودھا میں کنو کے جوس کا کنسنٹریٹ بنانے کے چند چھوٹے کارخانے ہیں۔ اس کے علاوہ پیوری کا ایک آدھ کارخانہ شاید ہو۔ پاکستان کی ضرورت کا سارا جوس، کنسنٹریٹ اور پیوری درآمد ہی کی جاتی ہے۔ بڑی کثیرالقومی کمپنیاں سالانہ لاکھوں ڈالر کا کنسنٹریٹ درآمد کرکے جوس بنا کر بیچتی ہیں۔

اسی طرح تمام بڑے ہوٹلوں میں ٹماٹر کی جگہ، ٹماٹر پیوری استعمال ہوتی ہے۔ اور پاکستان اپنی ضرورت کی تمام ٹماٹر پیوری دوسرے ممالک سے برآمد کرتا ہے، جبکہ موسم میں ہمارے اپنے ٹماٹر ایک روپے کلو بک رہے ہوتے ہیں۔ وطن عزیز میں دیگر بہت سے کاموں کی طرح اس کام کی بھی بہت گنجائش اور مواقع موجود ہیں۔ مگر زبان ِحضرت اقبالؒ

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دِکھلائیں کسے، رہروِ منزل ہی نہیں

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan