Doodh Ka Ubalna Khel Nahi
دودھ کا ابلنا کھیل نہیں
جس کسی کو لگتا ہے کہ انسان محنت سے سب کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ اور یہ تقدیر وقدیر کچھ نہیں اس سے گذارش ہے کہ ایک، دو بار دودھ ابال کر دیکھ لے۔ آپ بھلے وہ مائی ہوں جس کی نظرسے پانچویں محلے میں مقیم ماسٹر حمید کی چوتھی محبت بھی نہ چھپی ہوئی ہو، بھلے آپ وہ ہرجائی ہوں جو مختلف الجنس ہم جماعتوں کے اکھیوں کے اشارے بھی کن اکھیوں سے بھانپ لیتا ہے۔ چاہے آپ وہ نند ہوں جو تہتر میل دور بیٹھی اس بات کا حساب رکھتی ہے کہ چھوٹی عید پر بھاوج نے دو تھری پیس اور ایک ٹوپیس سوٹ بنائے اور بڑی عید ایک تھری پیس اور ایک ٹو پیس۔
بھلے آپ فٹ بال کے گول کیپر ہوں یا بسوں کے اڈے پر ٹائم کیپر۔ وکیل ہوں، ڈاکٹر ہوں یا انجینئر۔ ابلتے دودودھ کے سرہانے ایک پاؤں پر سانس روکے کھڑے ہوں۔ اگر اس نے ابل کر گرنا ہے تو بس گرنا ہے۔ ہم نے حیات گذشتہ میں کل ملا کر کوئی تیرہ بار دودھ ابالا ہوگا۔ چونکہ ہم عام آدمی نہیں ہیں۔ اس لیے ہمارا تجربہ تھوڑا مختلف ہے۔ ان تیرہ بار میں صرف دس بار تھوڑا سا گرا۔ جبکہ باقی تین بار میں تھوڑا سا بچا۔
اگرچہ دودھ ہم دنیا کا سب سے مقدس کام سمجھ کر ابالتے ہیں۔ یہاں تک کہ دودھ ابالتے ہوئے ملی نغمہ تک گاتے رہتے ہیں
امید صبح جمال رکھنا
دودھ سارا ابال رکھنا
نئے دِنوں کی مُسافتوں کو اُجالنا ہے
دودھ ہم کو گرے بغیر ابالنا ہے
صرف یہی نہیں ابالتے وقت بننے والے بلبلوں کو ہم بغور دیکھتے ہوئے سائنسدانہ غوربھی کرتے ہیں کہ پیش بینی کا کوئی فارمولا ہاتھ آجائے۔ یعنی ان کی مقدار، حجم اور سمت سے ہم دودھ ابلنے کے درست سمے کا تعین کرسکیں مگر مجال ہے جو امت مسلمہ کی طرح ان میں کوئی ہم آہنگی یا ربط ہو۔
کبھی محض سات سو تراسی بلبلوں کے بعد ہی ابل کر گرجاتا ہے۔ اور کبھی چار چار ہزار بلبلے بن بن کر سطح دودھ پر جان ہارتے رہتے ہیں اور تب جاکر ابل کر گرتا ہے۔ ایک بات ویسے اب تک کے تجربہ سے خوب سمجھ آئی ہے کہ ہماری نگاہوں سے خائف ہے۔ جونہی ادھر ادھر ہوئیں فوراً چولہے پر۔ گویا۔
بلبلوں سے نہ اکھیاں ہٹانا۔
بخد اس سے تو یسو پنجو ہارنے کے بعد پڑنے والی تھپڑ زیادہ قابل پیش بینی ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ قابل بھروسہ تو ساون کی بارش ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ درست پیش گوئی تو خواتین کے آنسوؤں کی، کی جاسکتی ہے۔
ہم نے بہت غور کیا ان بلبلوں پر۔۔ اتنا کہ کبھی ان میں قائداعظم کی شبیہ نظر آنے لگ جاتی اور کبھی تصویر جاناں۔۔ مگر کوئی وجہ اس بے اعتباری کی سمجھ میں نہ آئی۔ کبھی خیال آتا ہے کہ جس روز محترمہ بھینس صاحبہ نے چارہ کم اور غصہ زیادہ کھایا ہو اس روز شاید دودھ کم بلبلوں سے ابل جاتا ہے۔ اور کبھی یہ کہ شاید یہ محترمہ بھینس کے پلیٹھی کے کٹے کی بددعا ہے کہ جسے ظالم گوالے نے ماں کے دودھ سے محروم کردیا۔ مگر پھر سوچتے ہیں کہ ہوسکتا ہے یہ دودھ محترمہ بھینس کا ہوہی نہ، بلکہ گوالے کا ہو۔ اور سرف کی مقدار میں کمی بیشی اس بے ثباتی کا باعث رہی ہو۔
مایوس دقیانوسی کہتے ہیں۔ بہت ہی بدتہذیب شخص ہوگا کوئی جس نے یہ دودھ ابالنے کا چلن عام کیا۔ قابل خرگوشوی مگر کہتے ہیں یہ بہت ہی کارخیر ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق وطن عزیز میں اوسطاً پندرہ فیصد دودھ دینے والے جانور ٹی بی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان جانوروں سے ٹی بی کے جراثیم دودھ میں آجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانوں کو نقصان پہنچانے والے دیگر جراثیم بھی دودھ میں موجود ہوسکتے ہیں۔ لہذا دودھ کو ان جراثیم سے پاک کرنا نہایت ضروری ہے۔
گھریلو سطح پر اس کا سب سے آسان حل ابالنا ہی ہے۔ خالص دودھ، پانی کی طرح سو ڈگری سینٹی گریڈ پر ہی ابلتا ہے۔ اس درجہ حرارت پر اس میں موجود پروٹین کچھ تبدیل ضرور ہوتے ہیں لیکن رہتے پروٹین ہی ہیں۔ لہذا دودھ ابال کر استعمال کرنے سے غذائیت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ البتہ فیکٹریوں میں اس کو محفوظ کرنے کیلئے کم درجہ حرارت پر زیادہ دیر کیلیے یا زیادہ درجہ حرارت پر کم وقت کیلئے گرم کیا جاتا ہے جس سے اس کی مکمل غذائیت بحال رہتی ہے۔ اس عمل کو پاسچورائزیشن کہتے ہیں۔ چاہے گھر میں ابالیں یا بازار سے لیں لیکن ہمیشہ پا سچورائیزڈ دودھ ہی پئیں۔ کبھی بھی کچا دودھ پینے کی غلطی نہ کریں۔ چاہے حکیم لقمان نے ہی کہا ہو۔