Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Dast e Azad Ka Dukh

Dast e Azad Ka Dukh

دست آزاد کا دکھ

دست آزاد یا ہینڈ فری اب شاید اتنی ہی ضروری ہے جتنا ہمارے وقتوں میں محبت نامہ پھینکنے کے لیے وٹہ اور ربڑ بینڈ ضروری تھا۔مگر چونکہ سارا شباب بصد خواہش ہم ثانیہ الذکر کا تجربہ نہ کرسکے اسی لیے ہماری اول الذکر سے بھی نہیں بنتی۔آدھ گھنٹہ دست آزاد کے استعمال کے بعد باقاعدہ ٹھہر کر جائزہ لینا پڑتا ہے " کہ گھنجل زندگی میں زیادہ ہیں یا ہینڈ فری میں " ۔وہ الگ بات ہے کہ ہمیشہ زندگی ہی یہ بازی جیت جاتی ہے۔

تاریخ کےساتھ ساتھ جغرافیہ بھی گواہ ہے کہ مہنگی سے مہنگی ہینڈ فری ہمارے حلقہ دام میں کبھی پورے پندرہ دن نہیں چلی۔بارہا کہ تجربات اور کالے، سفید اور سرخ رنگ کی ہینڈ فریز کے دائرہ حیات پر سیر حاصل مطالعہ کے بعد بہرحال ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ سفید رنگ کی ہینڈ فری پھر بھی سات آٹھ دن نکل جاتی ہے۔جبکہ دیگر رنگوں کی تو محض ہفتہ بھر میں ہی تباہ ہوجاتی ہیں۔

پہلے ہمارا محض خیال تھا کہ موئے چینی ہمارے یہاں ناقص مال بھیجتے ہیں ۔اس لیے ہینڈ فری زیادہ عرصہ نہیں چلتی۔ پھر ایک روز ہم نے ایک تقریب میں ان کا سفیر دیکھ لیا۔تب سے ہمیں یقین ہے۔قابل خرگوشوی کہتے ہیں ایسا نہیں، آپ کو ہینڈ فری کی پہچان نہیں ۔ہم آپ کو لاکردیتے ہیں کئی ماہ خراب نہ ہوگی۔پھر وہ ایک لیکر آئے۔بہت خوبصورت، بھرا بھرا جسم گوری رنگت نرم وملائم۔ ہم مطمئن ہوگئے کہ چھ ماہ تو نکلیں گے۔چھ گھنٹے بعد دائیں کان کے سپیکر کا ڈھکن تن سے جدا ہو کرداغ مفارقت دے گیا۔

حضرت کو فون کیاکہنے لگے،ڈھکنوں پر ایلفی ڈالنا تھی نا۔ لوجی آپ نے کون سا ہدایت نامہ جاری کیا تھا کہ قبل از استعمال کون کون سے کام کمپنی نے ہمارے لیے چھوڑ رکھے ہیں ۔فرمانے لگے چلو اب ایک طرف کا سپیکر جڑ کے قریب سے کاٹ دو۔ویسے بھی آپ نے کون سا فرمودات قائداعظم سننا ہیں، ٹک ٹاک کی ویڈیوز ایک کان سے بھی صحیح سنائی دے جاتی ہیں۔

ہم نے اگلی بار ہینڈ فری اور ایلفی ایک ساتھ خریدی۔جہاں جہاں کوئی سوراخ یا نشان دکھا ایلفی ڈال دی۔سات دن بالکل خیریت رہی۔آٹھویں دن مائیکروفون کے پاس جہاں تاروں کا دو شاخہ بنتا ہے نا، وہاں سے صرف ایک تار نکلی۔بس یہی جگہ تھی جہاں ایلفی ڈالنے سے رہ گئی تھی۔فیصلہ کر لیا کہ آج کے بعد ہینڈ فری نہیں لیں گے۔

پچھلے سال سنگاپور میں ایک الیکٹرونکس کی نمایش دیکھنے کا موقع ملا۔ایک بھارتی ساڑھی پوش حسینہ نے ہمیں ہمارے نام سے مخاطب کیا۔ہیلو فاضل،ہاؤ آر یو؟ہم بہت حیران اور خوش ہوئے کہ بڑے آدمی تو ہم بچپن سے ہی ہیں ۔مگر اب تو شہرت سرحدوں کے پار تک بھی جا پہنچی۔قریب بتیس سیکنڈ ہم اس بین الاقوامی شہرت کے نشہ میں غرقاب رہے کہ اسی ساڑھی پوش نے ہمارے ہم سفر کو بھی مخاطب کیا۔ہیلو سالام ہاؤ آر یو؟ اوہ ہو،کمبخت گلے میں موجود داخلہ پاس پر جلی حروف میں چھپے نام پڑھ کر اپنی کاروباری سوجھ سمجھ کی دھاک بٹھا رہی تھی۔

ہماری انگریزی بولنے کی صلاحیت سے متاثر ہو کروہ اردو میں ہی گفتگو کرنے لگی۔ہمارے پاس بہت اچھا والا ہینڈ فری ہے۔خراب نہیں ہوتا۔اور نیلا دانت سے چلتا ہے۔نیلا دانت مطلب بلیو ٹوتھ۔دراصل وہ ایک سنگاپور کی کمپنی کی نمائندہ تھی۔ہینڈ فری میڈ آؤٹ آف چائنہ، بدست غیرملکی حسینہ اور کیا چاہیے تھا۔دو لے لیں ۔خوشی خوشی واپس آئے کہ اب تو خود کفیل ہو چکے ہیں اور کم از کم سال بھر کے لیے ایلفی اور ہینڈ فری سے بے نیاز۔

بس جی۔قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے ۔سات دن بالکل ٹھیک چلی۔آواز بھی ایسی شفاف کہ جیسے مخاطب ساتھ والے صوفہ پر ہی ہو۔ آٹھویں دن،کوئی دفتر کی میز پر سے اٹھا کر لے گیا۔آج بھی اسکی یاد آتی ہے تو دل میں کسک سی اٹھتی ہے۔

ہمارا دکھ سن کر پچھلے ہفتہ مایوس دقیانوسی نے ایک ہینڈ فری امریکہ سے بجھوائی۔کہتے ہیں اس کے ساتھ کی ایک میرے پاس ہے ایک سال سے چل رہی ہے۔ہم نے بصد شکریہ قبول کی ہے۔ایک دن کانوں میں لگائے رکھنے سے کان اس قدر دکھنے لگے ٹرمپ کو ہارنے کا دکھ کیا ہوگا۔غالبا کسی بالغ خرگوش کے کان کا سائز لیکر بنائی گئی ہے۔سو اتار کر دازر میں رکھ دی۔تین چار روز میں کان بحال ہوئے ہیں تو دوبارہ لگائی ہے۔پھر سے وہی دکھن۔احتیاط سے اتار کر دوبارہ دراز میں رکھ دی ہے۔مایوس دقیانوسی نے مایوس نہیں کیا۔امید ہے ایک سال سے زیادہ ہی نکال جائے گی۔دراز میں جو رکھی ہے۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari