Chehrana
چہرانہ

کہتے ہیں کسی کے ظرف کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے دوستوں اور ملازمین کو دیکھیں کہ کتنے پرانے ہیں۔ اعلیٰ ظرف لوگوں کے ساتھ لمبے ہوتے ہیں۔ ہمارے مصلح زلف بھی ایسے ہی زبردست انسان ہیں۔ چونتیس سال سے ہمیں برداشت کررہے ہیں۔ حالانکہ ان چونتیس سال میں انہوں نے چار بار، ہم نے پانچ بار ٹھکانے بدلے، شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک۔ مگر وہ پروین شاکر نے کہا تھا کہ
وہ کہیں بھی گیا حجامت کیلئے میرے پاس آیا۔
اگلے روز ہم نے فون پر فراغت کی بابت دریافت کیا۔ بولے ڈاکٹر سے وقت لیا ہے کمر میں درد ہے۔ مگر آپ آجائیں ایک زبردست کاریگر نیا آیا ہے۔ میں اسے سمجھا کرجاتا ہوں۔ ہم نے بھی جب حجامت کرنے یا کروانے کی ٹھان لی ہو، نہیں رکتے۔ کشاں کشاں پہنچ گئے۔ نئے کاریگر نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اور خوب حجامت بنائی۔ ازاں بعد اس نے اپنے دست ہنرمند کی جھلک دکھانے کو شیلف سے ایک سفید ڈبہ اٹھایا اور اس میں موجود دودھیا سیال، روئی کے پھاہے سے ہمارے چہرہ مبارک پر لگانے کا عندیہ ظاہر کرتے ہوئے کہنے لگا صاحب سمجھا کر گئے ہیں کہ آپکا چہرانہ (facial) کیا جائے گا۔ جس سے آپ کا رخ روشن اور بھی تاباں وضوفشاں ہوجائے گا۔
ہماری رفیقہ حیات اول یعنی عینک تو انہوں نے اتار کر پہلے ہی ہم سےدور کر رکھی تھی۔ گویا بے بصارت تو تھے ہی، تاباں وضوفشاں کا سن کر بے بصیرت بھی ہورہے۔ آنکھیں موند سر کرسی کے تکیے پر ٹکا دیا۔ مگر جیسے ہی اس کمبخت نے وہ دودھیا سیال لگایا، چہرہ تو کیا ہمارے چودہ طبق ہی روشن ہوگئے۔ اس قدر جلن ہوئی کہ کسی دیورانی کو جیٹھانی کی نئی گاڑی سے بھی نہ ہوتی ہوگی۔ تڑپ گئے۔ احتجاج پر کہنے لگا۔ صاحب حسین بننے کی اتنی تو قیمت ہوگی تھوڑا صبر کریں۔ ابھی راحت ہوگی۔ مگر جلن کہ بڑھتی جارہی۔ ہم نے فوراً صاف کرنے کا کہا۔ بلکہ خود سے رگڑ کر منہ دھویا۔
عینک لگائی بصارت بحال ہوئی، تو بچی کھچی بصیرت بھی آپس آگئی۔ سفید ڈبے کے مندرجات دیکھے۔ جلی حروف میں درج تھا۔ ہئر سٹریٹنر کمپاؤنڈ 20 فیصد تھائیوگلائکولک ایسڈ۔ مارے گئے، نئے کاریگر سے کہا، یہ کیا حماقت کی۔ کہنے لگا انگریزی سے آشنا نہیں صاحب نے کہا تھا سفید ڈبے والا کیمیکل پہلے لگانا۔ صاحب کو فون کیا، لگے فون پر ہی بے نقط سنانے۔ عرض کیا حضور اس کے شجرہ نصب میں ردوبدل بالمشافہ کرلیجیے گا ہمیں اسکا حل بتائیں۔ فرمانے لگے فوراً ماہر امراض جلد کے پاس جائیں۔
ہم نے رتن گروپ میں مسئلہ رکھا۔ حکیم حاذق نے کہا فورا شاہ نور سٹوڈیوز سے سامنے جارح، جراح کے پاس چلے جائیں، بہت قابل ہیں۔ نامی ہیروؤں کے سٹنٹ سے لگنے والی چوٹوں کے داغ توکجا، بڑی بڑی ہیروئینوں کے داغ ندامت تک صاف کرچکے ہیں، ڈاکٹروں کے بس کی بات نہیں۔ ساری زندگی کے لیےنشان چھوڑ دیں گے۔ آزاد روشن خیالوی نے ایک ڈاکٹر کا پتہ دیا۔ فوراً اس سے رجوع کریں ہرگز دیر نہ کریں۔ مایوس دقیانوسی نے امریکہ سے پیغام بھیجا۔ اس خبیث پر ملین ڈالر کا سُو کردو۔ لاکھ ڈالر بھی مل گیا تو ہائی نوز پراڈو لے لینا۔
اسی اثنا میں ہم گھر پہنچ چکے تھے۔ ذہن میں تھا کہ تیزاب ہے توکسی اساس سے تعدیل کرنا چاہیے۔ فوراً میٹھے سوڈے کا پانی میں ملا کر لیپ کیا، کچھ سکون ملا۔ اتنی دیر میں قابل خرگوشوی علیہ رحمہ کا فون آگیا۔ کہنے لگے جس کا کام ہے اسے کرنے دو۔ کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ عرض کیا حضور کس کا کام ہے؟ فرمایا فطرت کا۔ اور فطرت کی بحالی کا کام فطرت سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔ اگر زخم نہ بنے تو خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔ کوئی مہنگی سے مہنگی دوا بھی بہرحال کیمیائی مرکب ہی ہے۔ جس سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔
رات تک شب دیجور سے بھی سیاہ نشان بن گئے۔ من کہے کہ اشارہ غیبی ہے۔ اس کی ستاری نے بھرم رکھا ہے وگرنہ اندر سے تم ایسے ہی ہو۔ خرد ہوش مند کہے کہ نہیں نہیں۔ مہہ دوہفتہ کی تکمیل ہوئی ہے، داغ بنا چاند کس کام کا۔ جی کسمسائے کہ رخ داغدار کے ساتھ کیسے باہر جائیں۔ مگر بھلا ہو وبا کا کہ ماسک کا چلن عام ہے۔ سوائے جبینِ پرشکن کے کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اور ہمارے تیورِیِ تفکرانہ تو آج کل ویسے بھی عسرت معاشیاتِ اجتماعی و توقیفِ گردشِ دوران کے سبب چڑھی ہی رہتی ہے۔ سو زیادہ مسئلہ نہیں ہوا۔ آج الحمد للہ تمام نمادھائے داستان ظلم وجہالت معدوم ہوگئے ہیں اور ہم بفضل تعالیٰ بالکل پہلے ایسے ہوچکے ہیں۔ سوچا آپ کو بتا دیں۔ کہیں آپ بھی فیشل کروانے جا رہے ہوں۔

