Chalo Rehne Do Bhai
چلو رہنے دو بھائی
آپ کسی بھی جام کی بوتل اٹھا لیجیے، اس کے اجزاء ترکیبی پر نظر دوڑائیں، پھلوں کے گودے، چینی، اور ٹاٹری کے ساتھ ایک چیز ہمیشہ لکھی ملے۔۔"پیکٹین"۔ (Pectin)۔ پیکٹین ہلکے پیلے سے رنگ کا ایک طرح کا میدہ ہی ہوتا ہے جو جام، جیلیز اور دیگر کھانے والی اشیاء کو گاڑھا کرنے اور انہیں جمانے کے کام آتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح کام کرتا ہے جیسے دودھ میں کسٹرڈ ملانے سے دودھ گاڑھا ہوجاتا ہے۔
پیکٹین ہر طرح کے جام بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ جو جام کیک اور پیسٹری کی سطح پر لگا کر انہیں خوبصورت اور مزیدار بنایا جاتا ہے ان میں بسا اوقات پھلوں کا گودا شامل نہیں کیا جاتا بلکہ وہ صرف چینی، کھانے والے رنگ اور پھلوں کے ذائقہ اور خوشبو essence۔ ملا کر ہی بنائے جاتے ہیں۔ ان کا بھی لازمی جزو یہ پیکٹین ہی ہوتی ہے۔
پیکٹین کی فی کلوگرام قیمت تقریباً تین ہزار روپے ہے۔ اور اس کا بے تحاشہ استعمال ہے۔ پاکستان میں ساری کی ساری ضرورت کی پیکٹین درآمد ہی کہ جاتی ہے۔ اگر درآمدی اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں زیادہ تر پیکٹین ڈنمارک، اور چیک ریپبلک سے منگوائی جارہی ہے۔ جب تک بھارت سے تجارتی تعلقات تھے اس کا بڑا حصہ بھارت سے درآمد کیا جاتا تھا۔
اب اگر پیکٹین کے بنانے کی بات کی جائے تو آپ جان کر حیران اور افسردہ ہوں یہ مالٹے، کنو، مسمی، اور لیموں کے چھلکے سے تیار کی جاتی ہے جو ہم بکریوں کو کھلاتے ہیں۔۔ اسی طرح وہ کچے اور ہرے سیب جو پکنے سے پہلے درخت سے گر جاتے ہیں، ان سے بھی بنائی جاسکتی ہے۔ اور اس کا بنانے کا عمل بھی کوئی بہت، زیادہ مشکل نہیں ایک میٹرک سائنس پاس یا ایف ایس سی پاس جوان زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ میں بنانا سیکھ سکتا ہے۔
اسی طرح اس کے بنانے کیلئے جو سامان چاہیئے وہ بھی سارا ہر گھر کے باورچی خانہ میں موجود ہوتا ہے۔ چھلکوں سے پیکٹین بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے مالٹے کے چھلکوں کو کاٹ کر خشک کرلیا جائے۔ پہلے ان میں سے الکحل کے ذریعے سے سٹرس آئل نکال لیا جائے۔ اور بعد میں انہی چھلکوں کو کسی برتن میں ڈال کر پانی میں ڈبو کر پینسٹھ سے اسی ڈگری سینٹی گریڈ تک آدھے سے ایک گھنٹہ تک گرم کیا جائے۔ اس دوران اس میں سائٹرک ایسڈ کی اتنی مقدار ڈالی جائے گی کہ محلول کی پی ایچ ایک سے دو کے درمیان رہے۔
گرم کرنے کے بعد اس محلول کو ململ کے کپڑے سے چھان لیا جائے گا۔ اس چھنے محلول میں جیسے ہی ایتھائل الکحل ملایا جاتا ہے پیکٹین جیل کی شکل میں علیحدہ ہوجائے گی۔ اس جیل کو چالیس سے پچاس ڈگری پر خشک کرنے سے پیکٹین تیار ہے جسے پیس کر پیک کرلیا جائے گا۔
اب بتائیں کہ کونسی راکٹ سائنس ہے اس کی تیاری میں، سردیوں میں جوس کی ریڑھیوں سے ہی روزانہ سو کلو چھلکے فی ریڑھی مل سکتے ہیں۔ ان چھلکوں سے جہاں روزانہ پانچ سے دس ہزار کا سٹرس آئل نکلے گا وہیں پندرہ سے تیس ہزار کی پیکٹین بھی مل جائے گی۔ ذین متحرک نوجوان دو دو مل کر بھی یہ کام کرسکتے ہیں۔ شاید چار پانچ سو گھریلو صنعتیں ملکر بھی صرف وطن عزیز کی ضروریات ہی پورا کریں گی۔ اس کے بعد ساری دنیا آپکی منڈی ہے۔
مگر یہ کیسی فضول پوسٹ ہے نہ بتایا چھلکے کہاں سے لینے ہیں، نہ بتایا سائٹرک ایسڈ کتنا ڈالنا ہے، اور ایتھائل الکحل پر تو ویسے ہی پابندی ہے۔ پھر اگر بنا بھی کی تو بیچیں گے کہاں۔ دکان والے تو ویسے ہی پیسے نہیں دیتے۔ ایسی پوسٹیں صرف واہ واہ کیلئے کی جاتی ہیں۔ اچھا۔ چلو رہنے دو بھائی۔