Bhai Murde Tum Kaha Ho
بھائی مردے تم کہاں ہو
ہم نے انگریزی کا قائدہ چھٹی جماعت میں جا کر دیکھا تھا۔ لیکن ہمارے کچھ ہم جماعت پہلی سے ہی انگریزی پڑھتے ہوئے آئے تھے۔ ہم مجموعی فطرت ملی کے تحت انگریزی سے نالاں اور ان سے خائف تھے۔ اور وہ بھی اس خوبی کی بنا پر خود کو ہم سے معتبر گردانتے تھے کہ وہ اے کو آ۔ پڑھتے تھے۔ گورنمنٹ سلیمانیہ ہائی سکول میں چھٹی جماعت کے تین سیکشن تھے۔ جو سب کے سب سکول کے وسیع میدان میں موجود نیم کے مختلف درختوں کے زیر سایہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے تھے۔ کمروں کی قلت کے باعث ساتویں جماعت کے تینوں سیکشن اوپری منزل پر بنا چھت کے کمروں میں تعلیم حاصل کرتے جبکہ چھٹی والے درختوں کے زیر سایہ۔
ساتویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے کچھ ایسا ہوا تھا کہ ساتویں جماعت میں ہمیں چھتوں والے کمرے مل گئے۔ سلسلہ تدریس معمول کے مطابق جاری تھا کہ ایک روز ایک منحنی سا نوجوان کلاس میں داخل ہوا۔ پتہ چلا ہمارا نیا ہم جماعت ہے جو پنجاب کے کسی دور دراز قصبے سے لاہور آیا ہے۔ ہم اردو میڈیم گروپ کے ایک لڑکے نے اس کی صحت کی مقدار اور وزن سے متاثر ہو کر اس کو مردے کا "نک نیم" عطا کر دیا۔ جبکہ انگریزی میڈیم کی ٹولی نے ان بھائی صاحب کو پیشنٹ یعنی مریض کا خطاب مرحمت فرمایا۔
بھائی مردہ عرف پیشنٹ دونوں ناموں سے برابر مشہور ہوگیا۔ تھا ذہین اور محنتی بھی۔ جلد ہی وہ ہمارے اور ایک اور ہم جماعت جس کا نام افضل تھا، کے ساتھ جماعت کے تین ٹاپرز میں شامل ہوگیا۔ وقت گزرتا رہا اور رفتہ رفتہ بھائی مردہ ہمارے اچھے دوستوں کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ یہاں تک کہ گھر آنا جانا ہوگیا۔ اس کے والد محترم کسی قالین بنانے والی کمپنی میں ڈیزائنر تھے انہوں نے اس کو سکیچ اور ڈرائنگ بنانا بہت اچھا سکھا رکھا تھا۔ جب کہ انکی والدہ جو بہت ہی نستعلیق خاتون تھیں گھر میں بچوں کو پڑھایا کرتیں۔
آٹھویں کے بورڈ کے امتحانات میں سکول میں چند نمبروں کے فرق افضل کی پہلی ہماری دوسری اور مردے کی تیسری پوزیشن رہی۔ میٹرک میں فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کی وجہ سے بہت فرق رہا۔ مردے کے ہم سے پچاس نمبر کم تھے اور وہ سکول میں سیکنڈ تھا۔ افضل شاید بمشکل فرسٹ ڈویژن لے سکا۔ ایف ایس سی میں ہم نے اور پیشنٹ نے سائنس کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہاں بھی ہماری اور پیشنٹ کی مسابقت اور دوستی ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ شام کے وقت ہم لان ٹینس بھی ایک ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ ایف ایس سی کا نتیجہ بہت مختلف رہا۔ ہمارے نمبر اتنے تھے کہ ہمارا داخلہ انجینئرنگ یونیورسٹی میں ہوگیا۔ لیکن پیشنٹ کو بی ایس سی میں داخلہ لینا پڑا۔
جب ہمارا یو ای ٹی میں ایڈمشن ہوا ہم خوشی سے اس کو ملنے گئے۔ نہیں معلوم اسے کیوں لگا کہ ہم اس کو چڑانے آئے ہیں۔ حالانکہ ہمارے ذہن میں دور دور تک بھی اس بات کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔ لیکن بہرحال اس کی بدن بولی اور انداز تکلم ہمیں نامناسب لگا۔ ہم اس کے بعد نہیں ملے۔ اور نہ ہی اس نے کوشش کی۔ سال دو سال بعد جب ہمارا غصہ ختم ہوا تو ہم پھر اس کے گھر گئے مگر پتہ چلا کہ وہ لوگ گھر چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔ کہاں گئے کچھ پتہ نہیں۔
بھائی مردے تم کہاں ہو یار۔ اتنی لمبی ناراضی اچھی نہیں ہوتی۔ کسی دن وقت نکال کر مل لو۔