Baraye Meharbani Is Ko Zaroor Parhen
براہ مہربانی اس کو ضرور پڑھیں
لیڈ یعنی سیسہ ایک دھات ہے۔ جس کے مرکبات کا استعمال کچھ عرصہ پہلے تک کپڑے اور چمڑہ رنگنے، گھروں میں دیواروں اور دروازے کے رنگ و روغن، فصلوں کی کیڑے مار ادویات، پٹرول، میک آپ کی اشیاء حتی کہ کھانے پینے کی چیزوں میں بھی کیا جاتا تھا۔
جیسے جیسے ہمارا علم بڑھا ہم نے جانا کہ سیسہ اور اس کے مرکبات انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ دنیا بھر میں ان کے عام استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی۔ یہاں تک کہ بندوق کی گولی جس سے جانوروں یا پرندوں کا شکار کیا جاتا جو بعد میں انسان کھاتے ہیں اس میں بھی سیسے کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی۔ آپ یہاں سے اندازہ لگائیں کہ سیسہ کے مرکبات کے نقصانات اس قدر زیادہ اور عمیق تھے کہ دیواروں اور دروازوں پر کئے گئے رنگوں میں سے بھی اس کے بخارات نکل کر سانس کے ذریعہ صحت پر اثر انداز ہورہے تھے۔
جدید سائنس نے یہاں تک راہنمائی کی ہے کہ انسانی جسم کا کوئی بھی عضو ایسا نہیں کہ جس کو سیسہ کے مرکبات نقصان نہ پہنچائے، اور دوسرا یہ کہ اس کی کم سے کم مقدار قابل استثناء مقدار پانچ مائیکرو گرام ہے۔ یعنی ایک گرام کا دس ہزارواں حصہ بھی اگر سانس یا خوراک کے ذریعہ جسم میں داخل ہو جائے تو وہ بھی قابل قبول نہیں۔
اسی طرح ایک اور دھات ہے کرومیم۔ کرومیم کے مرکبات بھی مختلف اشیاء کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ بطور خاص چمڑے کی تیاری، دھاتوں کے بھرت جیسے سٹین لیس سٹیل اور دھاتوں کی ملمع کاری جیسے موٹر سائیکل کے مڈ گارڈ پر کرومیم کی چمکدار تہہ، وغیرہ میں استعمال ہوتے ہیں۔ کرومیم کے مرکبات بھی انسانی صحت کے لیے سیسہ یا بعض حالتوں میں سیسہ سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ کرومیم کے مرکبات خاص طور پر انسانوں میں مختلف اقسام کے سرطان کا سبب بنتے ہیں۔
خطرناک سیسہ اور زہریلے کرومیم کے ملاپ سے ایک کیمیائی مرکب بنتا ہے، جسے لیڈ کرومیٹ کہتے ہیں۔ اس کیمیائی مرکب میں سیسہ اور کرومیم دونوں خطرناک ترین دھاتیں شامل ہوتی ہیں۔ یہ مرکب چمکدار پیلے رنگ کا ہوتا ہے۔ اور اس کا استعمال بھی بطور رنگ کیا جاتا رہا ہے۔ جو کہ ظاہر ہے اب دنیا بھر میں نہ صرف متروک بلکہ منع ہے۔ لیڈ کرومیٹ سانس یا خوراک کے ذریعہ سے انسانی جسم میں داخل ہوجائے تو یہ پھیپھڑوں، دل یا دیگر اعضاء کے امراض کا سبب بنتا ہے۔ بلکہ اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ جسم میں اس کی موجودگی کینسرکے خلیوں کی تخلیق کا سبب بن جائے گی۔
اس ساری جانکاری کے بعد انتہائی افسوس کے ساتھ یہ بتایا جارہا ہے کہ پاکستان میں سٹینفورڈ یونیورسٹی امریکہ اور آغا خان خان یونیورسٹی کراچی کے اشتراک سے کئے جارہے ایک حالیہ سروے کے نتیجہ میں یہ بات سامنے آئی ہے پاکستان کے مختلف شہروں سے حاصل کردہ ہلدی کے نمونوں میں پچاس فیصد تک میں لیڈ کرومیٹ کی اچھی خاصی مقدار پائی گئی ہے۔
اس سے پہلے بنگلہ دیش اور بھارت میں ہلدی میں سے لیڈ کرومیٹ کی ملاوٹ کے شواہد ملے تھے۔ بھارت کے کچھ علاقوں میں تیس فیصد اور بنگلہ دیش میں چالیس فیصد تک ہلدی میں لیڈ کرومیٹ کی آمیزش نوٹ کی گئی۔ پھر وہاں سرکار نے ایک مضبوط اور منظم مہم کے ذریعے ہلدی میں لیڈ کرومیٹ کی ملاوٹ کو کم کیا ہے۔ لیکن پاکستان کے بارے میں ہمیں خوش فہمی تھی کہ شاید یہاں ایسا نہیں ہوتا ہوگا۔ مگر مذکورہ بالا سروے نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ہلدی کو جب عام طریقہ سے کھیت میں ڈال کر خشک کیا جاتا ہے تو اس میں ایک ماہ سے دو ماہ تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ اس دوران اگر کھیت میں پھیلائی گئی ہلدی پر بارش پڑ جائے تو اس کا رنگ بہت گہرا بھورا یا کالا ہو جاتا ہے۔ ایسی ہلدی کو چچڑ کہا جاتا ہے۔ اس کی رنگت کی وجہ سے اس کی قیمت بہت کم ہوجاتی۔ ایسی ہلدی کو دوبارہ ہلدی کا رنگ دینے کے لیے اور نسبتاً کم معیار کی ہلدی کو چمکدار پیلا کرنے کے لیے اس کو پالش کیا جاتا ہے۔ اس پالش کے عمل کے دوران ہلدی کو لوہے کے ڈرموں میں ڈال کر گھمایا جاتا ہے جس سے اس پر چپکی ہوئی مٹی اور اس کا چھلکا اتر کر الگ ہوجاتا ہے، بیشتر صورتوں میں اس پالش کے عمل کے دوران ہی لیڈ کرومیٹ ڈال دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے مختلف شہروں سے حاصل کیے گئے نمونوں کے تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ لاہور میں تیس فیصد کراچی میں چالیس جبکہ گوجرانوالہ سے حاصل کیے گئے نمونوں میں پچاس فیصد تک میں یہ زہر موجود ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ صرف پاوڈر ہلدی میں ہی نہیں ثابت ہلدی میں بھی لیڈ کرومیٹ کی آمیزش موجود ہے بلکہ زیادہ ہے۔ اس سروے کے نتائج دیکھنے کے بعد جہاں ذہنی کرب سے گزر رہے ہیں وہیں ایک طمانیت بھی ہے کہ۔ کم از کم ہم عرصہ دراز سے انتہائی احتیاط سے حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق جدید ڈی ہائڈریٹرز میں خشک کی گئی ہلدی استعمال کررہے ہیں۔
(اگر آپ بھی زہریلی ہلدی سے بچنا چاہتے ہیں اور خالص، پاکیزہ اور کرکیومن سے بھر پور ہلدی استعمال کرنا چاہتے ہیں تو صبات فوڈز سے رابطہ کرلیں۔)