Aam Ke Aam
آم کے آم
بہت ہی کور ذوق ہوگا کوئی جس نے آم جیسے خاص الخاص پھل کا اتنا 'آم' سا نام رکھ دیا۔ ہم نے بہت غور کیا لیکن اس کے سوا کوئی وجہ سمجھ نہ آئی کہ تقریباً سبھی آموں کی شکل بالکل آم جیسی ہوتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ بالکل آم کی شکل کے پھل کو کہ جس کا ذائقہ بھی بالکل آم سا ہو، آپ کبوتر کہتے ہوئے بھی اچھے تو نہیں لگتے نا۔
آم دنیا کا واحد پھل ہے جو بچپن سے ہی ہونہار، محنتی اور ہر دلعزیز ہوتا ہے۔ دیکھیں صرف چھوٹے آم کو ہی امبی کہتے ہیں۔ کبھی کسی نے چھوٹے گنے کو گنی یا چھوٹے گرمے کو گرمی کہا ہے؟ اور پھر بنی نوع انسان اپنی اچارانہ اور مربانہ ہوس کی تکمیل کیلئے ان چھوٹے آموں کا بڑے پیمانے پر قتل آم کرتے آئے ہیں۔
حضرت قابل خرگوشوی کو آم اسقدر پسند ہیں فرماتے ہیں جس کو آم پر یقین آجائے اس کو پھرآخرت پر یقین کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ ہم نے حیرانی سے دریافت کیا بھئی وہ کیسے؟ کہنے لگے کہ جو اللہ اسقدر لذیذ چونسہ اور انور رٹول بناسکتا ہے اس کےلیے بھلا جنت بنانا کیا مشکل رہا ہوگا۔ غالب نے کہا تھا آم ہوں اور بہت سے ہوں، جبکہ ان کا فرمان ہے "آم ہوں چاہے کسی کے بھی ہوں "۔ جہاں بھی آم کی محفل جمی دیکھتے ہیں بن بلائے شریک ہوجاتے ہیں۔ آموں کی آفادیت پر ایک رٹا رٹایا لیکچر عنایت کرتے ہیں اور میزبان سے زیادہ آم کھا جاتے ہیں۔
کہتے ہیں آم پھلوں کا بادشاہ ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں جس بڑی تعداد میں پیدا ہوتا ہے۔ اگر غیر جانبدارانہ الیکشن کروائے جائیں تو یہ با آسانی پھلوں کا وزیراعظم بھی بن سکتا ہے بشرطیکہ سب پھل، پاکستانیوں کی طرح اپنی اپنی برادری کو ووٹ ڈالیں۔ ہاں البتہ، آئمہ آم جملہ افکار ہائے مسلمانی سے متاثر رہے ہوں، تب اور بات ہے، ایسے میں چونسے کا علیحدہ فرقہ ہوگا اور سندھڑی کا الگ، لنگڑے، دوسہری کے اپنے اپنے۔ ایسے میں پھر فالسے کو وزیراعظم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ آم اورہندو بھارت میں پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی آم اور غریب بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی آموں اور غریبوں میں کئی اقدار مشترک ہیں۔ ان کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی، جس پیٹی یا پیٹے میں، جتنے چاہیں گھسیڑ دیں، جتنا جی کرے مسالہ لگا دیں۔ اور یہ کہ دونوں کا رنگ آخر کار پیلا پڑجاتا ہے۔ وہ الگ بات ہے اول الذکر کی پیلاہٹ ایک کیمیائی مرکب بیٹا کیریٹون کی زیادتی کی وجہ سے ہوتی ہے جبکہ ثانی الذکر کی اس کی قلت کی وجہ سے۔ البتہ دونوں میں ایک فرق بھی اور وہ یہ کہ آم چوسنے کے بعد اس کی گٹھلی بہرحال بچ جاتی ہے۔
حکیم حاذق، استاد حکیم درمیانے علی خان صاحب فرماتے ہیں کہ بیٹا کیریٹون انسانوں کی قوت مدافعت بڑھانے کیلئے اسقدر ضروری ہے کہ ہر خاص وعام کو آم کے موسم میں بکثرت آم کھانے چاہئیں۔ وہ آموں کے خواص سے اتنے متاثرہیں کہ مہربانوں کی سیاسی آشفتہ سری سے پیدا دماغی امراض سے لیکر دیدارِ حسن سے پیدا شدہ امراض قلبی تک ہر مرض کا علاج میٹھے آم ہی بتاتے ہیں۔
آزاد روشن خیالوی کہتے ہیں دنیا میں سب سے شیریں اشیاء پاکستان کے آم اور مرزا غالب کی 'اس' کے لب ہیں۔ جن کے متعلق انہوں نے کہہ رکھا ہے
اتنے شیریں ہیں اس کے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوا
بھارتیوں کو مگر اس پر اعتراض ہے۔ ان کے خیال میں بھارت کے آم اور فلمی ہیروئینیں زیادہ سویٹ ہیں۔ آزاد روشن خیالوی بہت دراز قد ہیں، ہم نے ایک دن ان سے پوچھا اس کی کیا وجہ ہے۔ کہنے لگے بچپن، لڑکپن میں بے تحاشہ آم اور کنو کھائے ہیں۔ ہم نے اسی قاعدہ پر گل محمد سست سے پوچھا، آپ بھی بچپن میں زیادہ آم کھا کراس قدر لمبے ہوئے ہیں۔
'نہیں زیادہ مارکھا کر'۔ فوراً بولے۔
مایوس دقیانوسی کہتے ہیں، آم کھانا بالکل سرکاری مال کھانے جیسا عمل ہے۔ کھانے والے کو مزا آرہا ہوتا ہے اور دیکھنے والوں کو غصہ۔ آموں میں بہت زیادہ تعداد میں فینولک کیمیائی مرکبات پائے جاتے ہیں جو ہمارے جسم میں موجود خلیوں کی شکست وریخت کی رفتار کو کم کرتے ہیں۔ خاص طور پر چونسہ آم میں بیٹا کیریٹون کے ساتھ گالک ایسڈ کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے، جو قوت مدافعت بڑھانے کے ساتھ کئی خلیاتی بے قاعدگیوں کا علاج بھی ہے۔ کینسر کے خلیات بننے کے عمل کو روکتا ہے۔ ذیابیطس کے نقصانات کم کرنے میں معاون ہے۔ گویا ذیابیطس کے مریض دوسرے آموں کی نسبت چونسہ زیادہ بے فکری سے کھا سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں آم کی 1595 اقسام پائی جاتی ہیں مگر فلپائن والے ان میں سے سب بے ذائقہ اور پھسپھسی اقسام اگاتے ہیں۔۔ ان کا میٹھے سے میٹھا آم بھی ہمارے ہاں کے حلوہ کدو سے تھوڑا پھیکا ہی ہوتا ہے، اس کے باوجود دنیا بھرکی خشک آموں کی مارکیٹ میں ان کی اجارہ داری ہے۔ سوچتا ہوں اگر کہیں ہمیں ہوش آگیا اور گوروں کو ہم نے خشک چونسہ اورخشک سندھڑی پر لگادیا تو نہ صرف ہزاروں لوگوں کو روزگار ملے گا بلکہ لاکھوں ڈالر زرمبادلہ بھی سالانہ ملک میں آئے گا۔ مگر نہیں معلوم یہ کب اور کیسے ہوگا۔