Hamein To NRO De Do
ہمیں تو این آر او دے دو
تبدیلی کے منتظر اب ایک دوسرے کا منہ چڑھا رہے ہیں اور تبدیلی ہے کہ پاکستانی عوام سے بالکل روٹھی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ حکومت اپنے وعدوں اور کارکردگی پر غور کرنے کی بجائے اسی بات پر بضد ہے کہ وہ اپوزیشن کو این آر او نہیں دے گی۔ اپوزیشن سلیکٹڈ اور سلیکٹرز کا راگ الاپ کر حکومت اور سلیکٹرز کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان دونوں کے درمیان عوام مسلسل مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے اور سلیکٹرز خاموشی سے یہ سب دیکھ کر اگلی مرتبہ کی سلیکشن پر غور کر رہے ہیں۔
یہ صرف آج کا سیاسی منظر نامہ نہیں بلکہ ماضی میں بھی یہی صورتحال رہی اور شاید مستقبل میں بھی سیاسی صورتحال اس سے برعکس نہ ہو۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر حکومت اپنی کارکردگی دکھانے کی بجائے اپنے سے پچھلی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ ہر حکومت کے مطابق پچھلی حکومت خزانہ خالی چھوڑ کر گئی تھی۔ اپوزیشن اپنا آئینی کردار ادا کرنے کی بجائے ہمیشہ ہی سلیکٹرز کی نظر میں لاڈلا بننے کی کوشش کرتی ہے جبکہ سلیکٹرز ہر مرتبہ اپنے لاڈلے کو ہی سلیکٹ کردیتے ہیں۔ ساری صورتحال میں عوام کی حالت زار بد سے بدتر ہی ہوتی جاتی ہے۔ نہ حکومت کو عوام کے مسائل کی فکر ہوتی ہے اور نہ اپوزیشن عوام کا نام لیتی ہے۔ باقی رہ گئے سلیکٹرز، وہ تو خیر اس معاملے سے ہی بری الذمہ ہیں۔
جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو اپوزیشن نے حسب سابق، حسب معمول وہی سلیکٹڈ اور سلیکٹرز کی رٹ لگائی اور حکومت نے بھی این آر او نہ دینے کی گردان شروع کر دی۔ تبدیلی کے کچھ ماہ تک تو یہ منظر نامہ عوام کو بھی اچھا لگا مگر جب بات بڑھنے لگی، تبدیلی کہیں نظر نہ آئی، مہنگائی اور بےروزگاری نے غریب عوام کا جینا دوبھر کر دیا تو عوام پریشان ہونے لگی مگر مجال ہے جو حکومت اور اپوزیشن کا بیانیہ تبدیل ہوا ہو۔ اب حکومت تو حکومت اپوزیشن بھی یہی کہہ رہی ہے کہ حکومت ہم سے خوفزدہ ہے اور اب ہم سے این آر او مانگ رہی ہے۔ مگر عوام کا نہ کسی این آر او سے لینا دینا ہے اور نہ ہی وہ سلیکٹرز اور سلیکٹڈز کی گیم سمجھتے ہیں۔ انہیں تو اب اپنی دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں۔
عوام بس یہی کہہ رہی ہے کہ تم جسے چاہے سلیکٹ کرو جس سے چاہو این آر او مانگو اور جسے چاہے این آر او دو مگر خدارا ہمیں مہنگائی اور بےروزگاری کے خلاف این آر او دے دو۔۔۔۔