Punjab Ki Saain Sarkar
پنجاب کی سائیں سرکار
لفظ سائیں سرکار سن کر آپ کا خیال سائیں قائم علی شاہ کی سندھ حکومت کی طرف گیا ہوگا۔ کیونکہ قائم علی شاہ دو دفعہ وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے اور دونوں ہی دفعہ سندھ میں اہم معاملات ان کے ہوتے ہوئے کوئی اور چلاتا رہا۔ جس کی وجہ سے یہ اکثر بعض اہم معاملات سے لاعلم ہی رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لئے لفظ سائیں کا استعمال کیا گیا۔
بنیادی طور پر یہ لفظ کئی معنی دیتا ہے۔ لیکن اگر ہم سیاسی معنی کی بات کریں تو سائیں کہتے ہیں محتاج راج، لاپرواہ کو، یوں سائیں سرکار کا مطلب ہوا محتاج سرکار جو کہ اس وقت سندھ میں قائم علی شاہ صاحب کی تھی۔ خیر وہ تو ماضی تھا۔ اس کا نقصان بھی ہم نے سندھ میں دیکھ لیا کہ سندھ کا پھر کیا حال ہوا۔ سندھ کو اس طرز سیاست سے کھنڈرات کے دور میں واپس لے جایا گیا۔ جبکہ اس ہی وقت پنجاب میں ایک آزاد اور خودمختار وزیر اعلیٰ کی حکومت تھی۔ جو کہ ہر فیصلہ اپنی مرضی سے لیا کرتے تھے۔ جس کا فائدہ آخر کار پنجاب کو ہوا۔ یقیناً پنجاب مالی، انتظامی، سیاسی، تعلیمی اور دیگر حوالوں سے باقی صوبوں سے بہتر صوبہ تھا۔
ان ادوار کا تذکرہ کرنے کا مقصد ماضی کی کڑیاں جوڑنا ہے۔ کیونکہ جو ماضی میں سندھ کے ساتھ ہوا اور جو طرز سیاست وہاں رائج رہی تھی۔ پھر وہی کچھ عمران خان کی حکومت میں پنجاب کے ساتھ کیا گیا۔ یعنی کہ پنجاب میں بڑے ناموں کے ہوتے ہوئے ایک نامعلوم اور پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کیا گیا۔ در اصل یہ اس لئے کیا گیا کہ پس پردہ پنجاب حکومت خود عمران خان چلانا چاہتے تھے۔ اور صرف یہاں ہی نہیں یہی نظام خیبر پختون خواہ میں بھی نافذ کیا گیا۔ لیکن پنجاب جو کہ بڑا صوبہ ہے۔ وہاں پر وزیر اعلیٰ کی گدی کا مضبوط نا ہونا ایک بحث کا آغاز کرتا تھا۔ جس میں میڈیا اور اپوزیشن نے بھرپور شرکت کی۔
بعض صحافیوں نے تو اس کو خان صاحب کا بد ترین فیصلہ قرار دیا۔ بعض نے کہا کہ یہ اس کرسی کے لئے درست انتخاب نہیں ہیں۔ خیر خان صاحب جو کہ ضدی طبیعت کے حامل ہیں۔ انھوں نے نہ صرف اس نو منتخب وزیر اعلیٰ پر اعتماد کا اظہار کیا بلکہ وسیم اکرم پلس کا خطاب بھی دے دیا۔ خیر یہ نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب یعنی کہ وسیم اکرم پلس سب سے پہلے تو پولیس کے نظام میں خاموش رکاوٹ بن گئے اور بعد میں کئی ایسے قابل افسران ان کی طرز حکمرانی سے مایوس ہو کر عمرانی حکومت چھوڑ کر چلے گئے۔ جن میں سر فہرست سابق آئی جی پختون خواہ ناصر درانی شامل تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ صاحب جو کہ اتنے بڑے صوبے کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ اپنے صوبے کے انتظامی امور چلانے کے لئے وزیراعظم عمران خان کی مدد لیا کرتے ہیں۔ یا پھر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان پنجاب کے معاملات خود دیکھنے کے لئے وسیم اکرم پلس کا استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ انھیں بھی معلوم ہے کہ بزدار سرکار میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اتنے بڑے صوبے کے معاملات دیکھ سکیں۔
وہ بیورو کریسی جو کہ شہباز دور میں حکومت کے ساتھ تھی۔ اب وہ عمرانی حکومت میں عمرانی نظام کیسے کامیاب ہونے دے سکتی ہے۔ لہٰذا بیورو کریسی نے شروعات ہی سے حکومت کو مسائل سے دوچار کردیا۔ جس کے بارے عمران خان اکثر کہا کرتے ہیں کہ یہ نظام ہمیں چلنے نہیں دے رہا۔ بس اس نظام کے ہوتے ہوئے جہاں پر عام آفیسر تک حکومتی اداروں کے خلاف تھا۔ وہاں اس ماحول میں ایک نا تجربہ کار وزیر اعلیٰ کا انتخاب یقیناً حیرت انگیز ہے۔ خیر اب تو دو سال گزر گئے ہیں۔ اگر عمران خان نے اپنا فیصلہ بدلنا ہوتا تو بہت پہلے بدل لیتے۔ لیکن اب بھی خان صاحب ڈھٹائی کی حد تک اپنے اس غلط فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ان کے اس غلط فیصلے کا نقصان یقیناً ان کو ضرور ہوگا اور عوام کو تو ہو بھی رہا ہے۔ آج سندھ سائیں سرکار کی طرح یہ پنجاب حکومت بھی عوام میں ویسے ہی غیر مقبول ہوتی جارہی ہے۔ بالکل سائیں قائم علی شاہ کی طرح بزدار سائیں بھی بیشتر معمولات سے لا علم ہیں۔ ویسے ہی سندھ کی طرح سائیں سرکار کے ہوتے ہوئے کرپشن کا بازار گرم ہے۔ ممکن ہے کہ سائیں بزدار اس میں ملوث نہ ہوں۔ لیکن ہو تو یہ ان کے نیچے رہا ہے۔ جس کی وجہ سے عام تاثر یہ جاتا ہے کہ مستقبل میں بزدار سائیں اپنے اور اپنی پارٹی کے لئے مصیبت کا باعث بن سکتے ہیں۔
لہٰذا تمام اشارے اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ پنجاب میں بزدار سائیں کی حکومت اور سندھ میں سائیں قائم علی شاہ کی حکومت دونوں کا طرز عمل ایک ہے۔ لہٰذا نتیجہ بھی ایک ہی نکل رہا ہے۔ جو حال کراچی کا ہوا تھا سائیں قائم علی شاہ کی سرپرستی میں اس جیسا ہی حال سائیں بزدار کی حکمرانی میں لاہور میں ہورہا ہے۔ جیسے وہاں کراچی میں صفائی کی صورت حال خراب تھی۔ ویسے ہی یہاں لاہور میں صفائی کی صورتحال بہت ہی خراب چل رہی ہے۔ ہر جگہ کچرا ہی کچرا پڑا ہے۔ لاہور شہر جو کہ شہباز دور میں صفائی کی مثال ہوا کرتا تھا۔ آج اس کرپٹ ترین حکمران کو یاد کر رہا ہے۔ کیونکہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ شہباز شریف کے مالی بدعنوانی کے معاملات جیسے بھی ہوں لیکن انتظامی معاملات میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے صرف لاہور کی تصویر بدل کر رکھ دی تھی۔ کیونکہ وہ خود اس شہر کے رہائشی تھے۔ اس لئے باقی پسماندہ علاقوں کا فنڈ بھی لاہور میں لگا کرتا تھا۔ لیکن اب بزدار سائیں کی حکومت میں یہ فنڈ لاہور سے تونسہ شریف منتقل ہوگیا ہے۔ کیونکہ تونسہ شریف سائیں بزدار کی جم پل ہے۔ لہٰذا جو جہاں سے تعلق رکھتا ہے وہ پھر فنڈ کا انتقال بھی وہاں ہی کروا لیتا ہے۔ خیر شہباز نے تو باقیوں کا حق کھا کر لاہور کو فرانس بنا دیا تھا۔ لیکن کیا بزدار تونسہ کو جدید کر سکیں گے؟ امید ہے کہ وہ یہی کرلیں۔ کیونکہ یہ بھی ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
بزدار سائیں کی حکومت لاہور والوں کے ساتھ دشمنی پر اتر آئی ہے۔ جو شہر صفائی میں اپنی مثال آپ تھا۔ آج وہاں صفائی کی ابتر صورتحال بدبودار اور گندے لاہور کی ترجمانی کر رہی ہے۔ کورونا وائرس کا شکار تو ویسے بھی لاہور بن چکا ہے۔ خدشہ ہے کہ صفائی کی یہ ابتر صورتحال کوئی اور مسئلہ نہ کھڑا کردے۔ کیونکہ سموگ بھی اس وجہ سے زیادہ ہوجاتی ہے۔ لہٰذا لاہوری صفائی کی اس ابتر صورتحال سے پریشان ہوگئے ہیں۔ امید ہے کہ ان کی شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔ نیز یہ کہ سائیں قائم علی شاہ کے کراچی کی طرح سائیں بزدار کے لاہور کا حال مختلف ہوگا۔ کیونکہ لاہور اس ابتر صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔
صفائی کے اس نظام کو بہتر بنانے کی بزدار حکومت نے یقین دہانی تو کروائی ہے۔ 2020 میں پرانی کمپنی جو کہ صفائی ستھرائی کا نظام سنبھال رہی تھی ان کے معاہدے کی مدت پوری ہوگئی تھی۔ جس کے بعد بزدار سرکار المعروف پنجاب کی سائیں سرکار صفائی کے لئے کسی نئی کمپنی کی تلاش میں ہے۔ امید ہے کہ شہر کی صفائی کا ٹھیکہ کسی اچھی کمپنی کو دیا جائے گا۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سب جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ کیونکہ لاہور اپنے آپ کو گندا ہوتے ہوئے زیادہ دیر برداشت نہیں کرے گا اور نہ ہی لاہوری یہ قبول کریں گے۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ جیسے سائیں قائم علی شاہ کو ہٹا کر مراد علی شاہ کو لایا گیا تھا۔ یہی کچھ پنجاب میں بھی کیا جائے۔ کیونکہ تبدیلی جس کی بات عمران خان کیا کرتے ہیں۔ وہ اب پنجاب کی سائیں سرکار کی تبدیلی سے ہی مشروط ہے۔ اگر پنجاب میں حکومت ناکام ہوجاتی ہے تو یہ نقصان صرف پنجاب کے حوالے سے نہیں بلکہ وفاق کے حوالے سے ہوگا۔
اب بھی موقع ہے عمران خان ضد چھوڑ کر پنجاب کی سائیں سرکار کو تبدیل کردیں۔ کیونکہ تبدیلی تو اچھی ہوتی ہے۔