Eman Dol Jain Ge
ایمان ڈول جائیں گے
چند روز قبل سینٹ انتخابات میں عجب منظر دیکھنے کو ملا۔ جہاں قومی اسمبلی میں حکمران جماعت اکثریت ہونے کے باوجود حریف سے ہار گئی۔ قدرت کا عجب منظر تھا کہ اس دن جہاں حکومتی امیدوار حفیظ شیخ ہار گئے تھے وہاں دوسری امیدوار فوزیہ ارشد زائد ووٹ حاصل کرکے سینیٹر منتخب ہوگئی تھیں ۔ یہاں حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ حفیظ شیخ 164 ووٹ ہی حاصل کرسکے اور یوسف رضا گیلانی چاراضافی یعنی 169 ووٹ کی برتری سے سینیٹر منتخب ہوگئے۔
در اصل اس صورتحال کی دو وجوہات ہیں اول تو یہ ہے کہ شائد حفیظ شیخ، یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں مضبوط امیدوار نہیں تھے۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہاں ضمیر چلا ہوگا۔ لیکن اس شکست کی دوسری وجہ کچھ اور ہی تصویر کھینچ رہی ہے۔ ایسا کیوں کر ممکن ہے کہ ایک ہی ایوان میں حکومتی اکثریت زائد ہونے کے باوجود حکومت ایک اہم سیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ جبکہ دوسری سیٹ میں وہ کامیاب ہوگئی۔ یہاں یہ حیرت ہر کسی کو اس شک میں مبتلا کرتی ہے کہ ضمیر نہیں بلکہ زر کا جادو چلا ہے۔
ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی سینیٹ کے انتخابات شفاف نہ ہو پائے۔ بلکہ ہر دفعہ کی طرح ایک گروہ نے دوسرے گروہ کے ووٹ خرید لیے۔ جس گروہ کے ووٹ خریدے گئے وہ گروہ حزب اقتدار میں بیٹھا ہے اور جس نے یہ ووٹ خریدے وہ گروہ حزب اختلاف میں بیٹھا ہے۔ یعنی جادو اس دفعہ زر کا ہی چلا ہے ۔ 'زر' نے بھی زر کا کیا خوب استعمال کیا ہے۔ بقولِ فرزند زرداری کے یہ ایک آرٹ ہے جو کہ صرف ہمیں آتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ آرٹ صرف زر کو آتا ہے۔ کیونکہ حکومت تو خزانے پر بیٹھنے کے باوجود بھی زر کا استعمال نہ کر پائی۔ جبکہ ایک صوبہ کی حکومت کرنے والوں نے اس آرٹ کا استعمال کرتے ہوئے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ در اصل یہ وہ آرٹ ہے جس کو ہم انگریزی زبان میں ہارس ٹریڈنگ بھی کہتے ہیں ۔ اس آرٹ کا استعمال سندھ کی سیٹوں سمیت یوسف رضا گیلانی کی سیٹ پر کیا گیا۔
اس شکست کے بعد ہی عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ نیز اپنے خریدے گئے ممبران کو یہ پیغام بھی دیا کہ کھل کر میری مخالفت کرو۔ لیکن وہ بکاؤ ممبران قومی اسمبلی میں سامنے نہیں آئے بلکہ دو ووٹ زائد حاصل کر کے عمران خان اس اعتماد کی تحریک میں کامیاب ہوگئے۔ در اصل یہ پیغام تھا کہ اگر سینیٹ الیکشن اوپن طریقے سے ہوں گے تو نہ ضمیر چلے گا اور نہ ہی زر، پھر حقیقی طور پر منصفانہ انتخابات ہوں گے۔
اس سب صورتحال کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب اس جمہوریت کی شفافیت بالکل ختم ہوگئی ہے اور جیسے کہ یہ نظام میں اخلاقی اقدار کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ یہاں سب کے ایمان ڈولے گئے ہیں ۔ جس کی رو سے شہر اقتدار میں ہر ایک کی بولی لگی ہے اور ہر کوئی بکا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ جب سب بکتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ بھی انکی بولیاں لگاتی ہے۔ یہ آرٹ نے منتخب نمائندوں کی عزت مٹی میں ملا دی ہے۔ یہاں ہارس ٹریڈنگ جو کہ مغربی نظام میں بدترین جرم سمجھا جاتا ہے اس کو عرف عام میں آرٹ کہا جاتا ہے۔ یہاں فخر سے کہا جاتا ہے کہ صرف پیسے نہیں بلکہ پارٹی ٹکٹ بھی چلی ہے۔ لیکن اس سب پر اتنی حیرت نہیں ہوتی جتنا کہ الیکشن کمیشن کے رویہ پر ہوتی ہے۔ کیونکہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی سفارشات پر عمل نہ کرتے ہوئے اوپن بیلٹ کو لاگو نہ کرسکا۔ گو کہ خفیہ طریقے سے انتخابات کروانا حکومتی موقف کو درست ثابت کرتا ہے۔ اگر آج اس نظام کو تبدیل کیا جائے تو ہم اس آرٹ جو کہ آپ نے فرزند گیلانی کی ویڈیو میں دیکھا تھا اس آرٹ سے اپنے ایوانوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔
یہاں ایک اور بحث بھی جنم لے رہی ہے کہ یہ فرسودہ نظام جس کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہوتا ہے اور پھر اس کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہوتی اب اس نظام کو دفنا دیا جائے۔ نیز ایک ایسا شفاف نظام قائم کیا جائے جس میں یہ سب کالے قوانین اور کالے کرتوت والوں کے خلاف موثر کارروائی کی جائے۔ جس میں بالخصوص عدل کا نظام بہترین اور برق رفتار کیا جائے۔ اس نظام کو قائم کرنے کے لئے کوئی لیڈر شپ درکار نہیں ہے۔ کیونکہ ہم نے عمران خان کو یہ موقع دے کر دیکھ لیا ہے کہ حکمران شفاف بھی ہو اور نیچے سے سب بد عنوان ہوں تو حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی۔ حقیقی تبدیلی ایک نظام کی تبدیلی ہے جو کہ نیچے سے آتی ہے۔ اگر ہم سب انفرادی طور پر تبدیل ہوں اور اس بد عنوانی کو برا سمجھنے لگیں تو درحقیقت یہ وہ اصل تبدیلی ہوگی جس کے نتیجے میں ایک شفاف اور آزادانہ طور پر مضبوط نظام کا قیام عمل میں آئے گا۔
میں اپنی تمام تر بحث کو شعر کی مدد سے ایک کوزے میں سمیٹنے کی کوشش کروں گا۔ جو کہ نہایت سادہ اور بہترین طریقے سے اس انقلاب کی شمع کو روشن کرنے کی ترغیب دے رہا ہے کہ؛
رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں