Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Humayun Shahid/
  4. Budget 2021 Ghareeb Ka Ya Ameer Ka?

Budget 2021 Ghareeb Ka Ya Ameer Ka?

بجٹ 2021 غریب کا یا امیر کا ؟

بجٹ 22-2021 جو کہ 13 جون کو نئے وزیر خزانہ جناب شوکت ترین نے اسمبلی میں نہایت ہی شوروغل کے ماحول میں پیش کیا۔ اس بجٹ کے بارے میں شوکت ترین کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ غریب کا بجٹ ہے۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان کا اس حوالے سے یہ کہنا تھا کہ یہ بجٹ سب کو خوش کردے گا۔ اس حوالے سے معاشی ماہرین کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ بجٹ امیر اور غریب دونوں کے لئے بہت مناسب ہے۔

جبکہ حکومتی ناقد اور معاشی ماہر خرم حسین ڈان نیوز میں لکھتے ہیں کہ اس بجٹ میں آئی ایم ایف کے علاوہ سب کے لئے بہت کچھ ہے۔ یعنی بجٹ کا حجم جو کہ 8 ہزار ارب سے زائد کا ہے۔ جو کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ ہے۔ کیا معاشی ترقی کا باعث بنے گا یا پھر مزید قرض لینے کا موجب بنے گا؟ یہ سب تو اس بجٹ پر عملدرآمد پر منحصر ہے۔ کیونکہ بجٹ میں کئی تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں۔ جو کہ بعد میں مسترد یا تبدیل بھی ہو جایا کرتی ہیں۔ خیر بات ہورہی تھی کہ یہ بجٹ غریب کے لئے زیادہ بہتر ہے یا امیر طبقے کے لئے زیادہ آسانیاں پیدا کرے گا؟ اس حوالے سے اگر ہم بجٹ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے بجٹ میں بظاہر تو غریب کو ریلیف فراہم کیا ہے۔ لیکن بعض دیگر چیزوں میں حکومت نے بلاواسطہ ٹیکس کی شرح بڑھا کر غریب کی ہی جیب میں ڈاکہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔

لیکن پھر بھی دیگر بجٹ سے موازنہ کیا جائے تو یہ بجٹ غریب کے لئے راحت بخش ثابت ہوگا۔ رہی بات ٹیکس کی تو وہ تو غریب عوام سے ہی موصول کیا جاتا ہے۔ یعنی ہر ادوار میں پیسہ غریب کا ہوتا ہے اور بجٹ امیر اور سرمایہ داروں کا ہوتا ہے۔ ملکی آغاز سے ہی بجٹ میں سرمایہ دار طبقے کو ریلیف دیا جاتا ہے۔ اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب سرمایہ دار کی صنعت کا پہیہ چلے گا تو غریب کا بھی روزگار بہتر ہوگا۔ لیکن یہ سب قیاس آرائی ہوتی ہے در اصل جب بھی حکومت نے سرمایہ دار کو ریلیف دیا ہے۔ اس سے امیر امیر تر ہوتا گیا ہے، جبکہ غریب آدمی مزید غریب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ امیر اپنی ترقی کا ثمر نیچے کی طرف منتقل نہیں کرتا۔ جس سے غریبوں کا استحصال ہوتا ہے اور امیر امیر تر ہوجاتا ہے۔

خیر خان صاحب کی حکومت میں بھی یہی کچھ ہوا ہے ان کے تمام بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ کیونکہ ان کے دور میں بھی غریب کو ہی نچوڑا گیا ہے۔ جبکہ امیر کو ریلیف دیا جاتا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت امیر طبقے کو زیادہ سے زیادہ ٹیکس نیٹ میں شامل کروائے۔ لیکن اس کے برعکس ہر دفعہ بلاواسطہ ٹیکس لگا کر غریب کی ہی کمر توڑی جاتی ہے۔ کیونکہ امیر تو اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرکے وہ ٹیکس بھی غریب سے وصول کرتا ہے۔ جس سے مہنگائی میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ گزشتہ دو بجٹ میں تو تنخواہ دار کی تنخواہوں میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ جس کی بدولت غریب اور تنخواہ دار طبقہ سخت ترین حالات کا سامنا کرنے پر مجبور تھا۔ خیر جب کورونا بھی تھا۔ لیکن اب حالات بہتر ہوگئے ہیں۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا غریب کے حالات بھی بہتر ہوں گے یا وہ مزید پسے گا۔

لہٰذا اس ماحول میں غریب عوام کے لئے بغیر سود قرض، ٹیکس میں چھوٹ، چھوٹی گاڑیاں (جو کہ غریب کا خواب ہوتا ہے) اس کی قیمت میں کمی، تنخواہوں میں کچھ اضافہ یہ سب غریب کے لئے کچھ راحت کا سامان پیدا کرے گا۔ نیز صوبائی حکومتوں کے بجٹ میں تنخواہوں میں بیش بہا اضافہ تنخواہ دار طبقے کو کچھ ریلیف فراہم کرے گا۔ لیکن ساتھ ساتھ حکومت نے ملکی ترقی کو بھی ترجیح دیتے ہوئے بجٹ میں تعمیر و ترقی کے لئے خاص حصہ رکھا ہے۔ جو کہ ملک میں غریب اور امیر دونوں طبقات کے لئے ترقی کی راہیں ہموار کرے گا۔ ہر بجٹ کی طرح اس بجٹ میں بھی صنعتوں کو ٹیکس کی چھوٹ دی گئی۔ تاکہ ملک میں صنعتیں چلیں اور ہماری برآمدات میں اضافہ ہوسکے۔ یہی نہیں حکومت نے زراعت کے شعبے میں بھی کافی ریلیف فراہم کیا ہے۔ چھوٹے کسانوں کے لئے بغیر سود قرضہ اور زرعی آلات پر ٹیکس چھوٹ زراعت کے شعبے میں ترقی کا باعث بن سکتا ہے۔ گو کہ ہر حوالے سے یہ بجٹ معاشی گروتھ کا بجٹ ہے۔ جو کہ مثبت نتائج سامنے لائے گا۔ لیکن یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ بجٹ کے تمام نقاد پر من و عن عملدرآمد کیا جائے۔ اس بجٹ کو ہم سیاسی بجٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ اس بجٹ سے لگتا ہے کہ حکومت اگلے الیکشن کی تیاری شروع کرچکی ہے۔

Check Also

Jimmy Carr

By Mubashir Ali Zaidi