Ainu Lahore Le Jao
اینو لاہور لے جاؤ
لاہور شہر شروعات ہی سے تاریخی، علمی اور ادبی لحاظ سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ شہر سلطنت مغلیہ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کا اہم قلعہ بھی رہا ہے۔ اس شہر میں موجود تعلیمی ادارے اور اسپتال اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری لالی وڈ بھی لاہور سے ہی منسوب کی جاتی ہے۔ اور میرا زیر بحث عنوان اسی انڈسٹری میں بولا جاتا تھا۔ جس کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ کوئی مریض کسی طبیب کے پاس گیا تو طبیب نے کہا " اے نہیں بچنا اینو لاہور لے جاؤ"۔ بظاہر یہ فلمی ڈائیلاگ جو کہ مریض عشق کی عکاسی کرتا ہے۔ آج حقیقت میں دیگر مرائض کے لئے بھی کہا جانے لگا ہے۔
وہ ایسے کہ آج بھی چھوٹے شہروں میں اگر کوئی شدید بیمار ہو جائے تو وہاں کے ڈاکٹر بھی یہی کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اینو لاہور لے جاؤ۔ لاہور شہر کی یہی خاص بات ہے کہ یہ ہر سوالی چاہے وہ علاج کی غرض سے آئے یا تعلیم یا پھر رزق کے حصول میں، یہ کسی کو مایوس نہیں بھیجتا۔ نیز جو ایک بار اس شہر میں آتا ہے۔ اس کو اس شہر کی لت پڑ جاتی ہے اور بعض تو ہمیشہ کے لئے لاہور کو اپنا مسکن بنا لیتے ہیں۔
لیکن کیا لاہور میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ وہ تمام پسماندہ علاقوں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرتا رہے؟ مستقبل کو دیکھ کر اگر اس سوال کا جواب دیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نہیں اتنی سکت نہیں ہے۔ کیونکہ لاہور کے اسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں رش بڑھتا جا رہا ہے اور اس کی ایک حد ہے۔ نہیں تو تصادم کا خطرہ ہے کہ کہیں لاہور والے اس کے خلاف بر سر پیکار نہ ہوجائیں۔ کیونکہ اس سے ان کو اپنے شہر میں ہی علاج کا اور تعلیم کا حصول ممکن نہیں رہے گا۔ اس کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے اور لاہور کو حقیقی معنوں میں میٹروپولیٹن سٹی بنانا ہوگا۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کو یہ بھی چاہیے کہ وہ فنڈز جو کہ شہباز دور میں لاہور کی خوبصورتی اور اس کو پیرس بنانے میں لگا کرتے تھے۔ ان تمام فنڈز کو جو کہ چھوٹے علاقوں کے حقوق پر ڈاکہ مار کر لاہور پر لگائے جاتے تھے۔ ان فنڈز کو اس کے اصل حق داروں یعنی کہ پسماندہ علاقوں کی تعمیر و ترقی میں لگانا چاہیے۔ کیونکہ اگر چھوٹے اور پسماندہ علاقوں میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے سہولیات فراہم کی جائیں تو میرا خیال ہے کہ اس سے بڑے شہروں پر بوجھ کم ہوجائے گا۔ نیز یہ کہ چھوٹے اور پسماندہ علاقے جدیدیت کی جانب بھی گامزن ہو جائیں گے۔
کیونکہ آج تو پسماندہ علاقوں میں اگر کسی غریب کو کتا بھی کاٹ جائے تو اس کی ویکسینیشن نہیں کی جاتی۔ یہاں تک کہ اگر کسی مریض کا مرض شدت اختیار کر جائے تو اس کے لواحقین کو کہا جاتا ہے کہ " اینو لاہور لے جاؤ"۔ کیونکہ اسپتالوں میں صرف فرسٹ ایڈ کی سہولت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہی صورت حال میرے جم پل شہر بہاولنگر کی ہے۔ جس کو کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔ بلکہ اس کے فنڈز جو کہ بہاولنگر میں میڈیکل کالج کے قیام میں صرف ہونے تھے۔ اس کو بد قسمتی سے شہباز دور میں لاہور کی اورنج ٹرین پر لگا دیا گیا۔ جس کا تاحال کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ جب کہ اگر اس فنڈ کو میرے شہر پر لگایا جاتا تو آج میرے شہر کی رونق ہی کچھ اور ہونی تھی۔
کیونکہ ایک میڈیکل کالج کا قیام کئی سہولیات اور ترقی کے مواقع ساتھ لاتا ہے۔ بہاولنگر میں پروفیسر حضرات اپنی خدمات دیتے تو بہاولنگر اتائی ڈاکٹروں کے زیر عتاب نہ رہتا۔ بلکہ شہر کی تعمیر و ترقی میں بھی اضافہ ہوتا۔ اسپتال بھی بڑا ہوجاتا اور اسپتال میں تمام سہولیات بھی میسر ہوتیں۔ لیکن یہ سب آہستہ آہستہ ہوتا۔ خیر بزدار حکومت نے کچھوے کی سپیڈ سے اس کالج کو مکمل کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔ جو کہ لگتا ہے کہ تدریسی عمل کے لئے مزید کئی سال لے گا۔ لیکن مجھے امید ہے کہ میرے شہر کا آنے والا وقت اس شہر کو درخشاں ترقی کے مواقع فراہم کرے گا۔
نیز میرے شہر کی طرح ہر پسماندہ اور چھوٹا علاقہ ترقی کی منازل طے کرے گا۔ کیونکہ چھوٹے شہروں کی ترقی میں ہی صوبے کی ترقی پوشیدہ ہے۔ امید ہے کہ بزدار سرکار پسماندہ علاقوں کی تعمیر و ترقی میں معاون ثابت ہو گی۔ لیکن بزدار سرکار کے دور میں لاہور کا حال دیکھ کر بھی افسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک شہر ماڈل تھا جو کہ اب ماند پڑتا جا رہا ہے۔ چھوٹے شہروں کے ساتھ ساتھ حکومت کو بڑے شہروں کی بھی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ تاکہ متوازن طریقہ اختیار کرکے شہری اور دیہی علاقوں میں آبادی کو سہولیات سے آراستہ کیا جائے۔