Aik Qaum, Aik Manzil
ایک قوم، ایک منزل
حالیہ دنوں آئی ایس پی آر کی جانب سے 23 مارچ کے خصوصی موقع پر ایک گانا ریلیز کیا گیا۔ جس کو بہت خوبصورتی سے علی ظفر اور آئمہ بیگ نے گایا ہے۔ اس گانے میں ہمیں بنیادی طور پر ایک قوم بن کر رہنے کا پیغام دیا گیا ہے۔ نیز ہر قوم کی ایک منزل بھی ہوتی ہے۔ جس کو اقوام جدوجہد سے حاصل کرتی ہیں۔ پس اس منزل تک کی رسائی کا راز بھی اسی گانے میں پایا جاتا ہے۔ لیکن میں یہ گانا سن کر جہاں محظوظ ہورہا تھا۔ وہاں یہ سوچ بھی کار فرما تھی کہ کیا ہم واقعی ایک قوم ہیں؟ کیا ہماری منزل ایک ہے؟
ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لئے بنیادی طور پر ہمیں تاریخ اور قوم کی تعریف سے آشنا ہونے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے قوم کی تعریف جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیا اجزائے ترکیبی ہیں جو کہ قوم کو مکمل کرتے ہیں؟ مختلف شخصیات نے قوم اور قومیت کی تعریف اپنے انداز میں کی ہیں۔ ہم ان سب کے خیالات کو چیدہ چیدہ پرکھتے ہیں۔ قوم کی ابتدائی شکل قومیت کو کہتے ہیں۔
قومیت کے بارے میں مشہور فلاسفر لاسکی کا کہنا ہے کہ قومیت ایک مخصوص نوعیت کا اتحاد ہے جو اس گروہ میں پیدا ہوتا ہے جو اس احساس میں شریک ہو اور یہ احساس اتحاد کی بدولت انھیں دوسرے گروہوں سے علیحدہ کرتا ہے، اور اس کی ایک وجہ مفکر گل کرائسٹ لکھتے ہیں کہ قومیت ایک روحانی احساس اور اصول ہے جو لوگوں کے ایسے گروہوں میں جنم لیتا ہے۔ جن کا تعلق ایک نسل، ایک جگہ، ایک زبان اور ایک مذہب سے تعلق رکھنے والوں میں پایا جاتا ہے۔ نیز ان کی روایات، رسم و رواج میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ان کے مفادات اور سیاسی مقاصد کا حصول ایک ہوتا ہے۔
زیر بحث قومیت کی مختلف تعریفیں اگر میں بیان کرتا رہا تو میرے الفاظ کم پڑ جائیں گے۔ لیکن قومیت کی تعریف اور میری تحریر ختم نہیں ہو گی۔ لہٰذا ہم ان سب تعریفوں کی مدد سے ایک بنیادی شکل اختیار کریں تو قوم لوگوں کے ایسے اجتماع کو کہتے ہیں جو کسی خاص خطہ زمین پر آباد ہوں اور جن کی روایات، ثقافت، تاریخ اور رسم و رواج مشترکہ ہوں۔ لیکن اس میں زبان مختلف ہوسکتی ہے۔ کیونکہ قوم میں مختلف زبانیں بولنے والے افراد موجود ہوتے ہیں۔
جیسا کہ اگر ہم پاکستان کو ہی دیکھ لیں جو کہ ایک قوم کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ لیکن پاکستان میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اصل قومیت کا اظہار تب ہوتا ہے جب ہم ان مختلف زبان بولنے والے افراد کو ایک طرح کا مقام دیں اور ترقی کے برابر مواقع فراہم کریں۔ لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان میں بلوچی زبان، سندھی زبان اور پشتو زبان بولنے والوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم نہیں کیے جاتے ہیں۔ بلکہ انھیں پنجابی زبان بولنے والوں کے مقابلے میں تعلیم، صحت، کھیل گو کہ ہر حوالے سے کم سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس عدم برابری کو میں یوں بیان کرسکتا ہوں کہ جہاں پنجاب میں پانی اور سوئی گیس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ وہاں سندھ کی زمین میں تھر جیسا علاقہ پانی کی بوند بوند کا محتاج ہے۔ اور بلوچستان جس کے علاقے سوئی کے نام سے مشہور قدرتی گیس پائپ لائن جو کہ پنجاب اور دیگر صوبوں کی ضروریات کو پورا کرتی ہے وہ اپنے ہی صوبہ کو یہ سہولت دینے سے قاصر ہے۔
وجوہات جو بھی ہوں پر اس غیر منصفانہ عمل پر سب کو بطور قوم آواز بلند کرنی چاہیے۔ صحت کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو ان تینوں صوبوں کے غریب عوام کو علاج کی غرض سے پنجاب آنا پڑتا ہے۔ کیونکہ وہاں تو جدید ترین سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ابھی چند روز قبل ہی ٹی وی سکرین پر جب میں نے پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کو اپنے بچے کے علاج کے لئے یوں سرگرداں دیکھا تو محسوس ہوا کہ کیا واقعی ہم ایک قوم ہیں؟ کیونکہ اقبال کا ایک قوم کا خواب اور قائد کی اس خواب کی تعبیر یعنی مملکت پاکستان آج اس احساس کی ترجمانی نہیں کرتا جو کہ اُس خواب میں شامل تھا۔
آج کا پاکستان تو تعلیمی حوالے سے بھی جدا ہے۔ کیونکہ جہاں پنجاب میں تعلیم کا لیول بہترین ہے وہاں سندھ اور بلوچستان تو اس لیول کے قریب بھی نہیں آتے ہیں۔ یہاں تک کہ حکومت کا ایک نصاب والا پروگرام بھی سندھ مسترد کر چکا ہے۔ کیونکہ سندھ کے حکمران چاہتے ہی نہیں کہ سندھ کے عوام شعور یافتہ ہوں۔ لہٰذا اپنی گدی مضبوط کرنے کی غرض سے سندھ کے حکمران انھیں تعلیمی حوالے سے پیچھے رکھتے ہیں۔ لیکن یہ سب ظلم جو کہ سندھ کے لوگ ہی سندھ پر کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف بطور قوم ہمیں آواز بلند کرنا ہوگی۔ تاکہ ایک قوم، ایک نصاب کا خواب تو شرمندہ تعبیر ہو۔
ایک قوم بننے میں ہمیں وقت لگے گا۔ بیشک ہمارے آباؤ اجداد نے 23 مارچ 1940 میں ایک قوم بننے کا عزم کیا تھا اور پھر اس عزم کے نتیجے میں وہ اپنا الگ وطن لینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ لیکن ہم نے اس عزم کو اپنے مفادات کے بوجھ تلے دفن کر دیا ہے۔ لیکن یہ عزم بعض اوقات دشمن کے خلاف معرکوں میں دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے۔ اور ہم سب اپنے مفادات پس پشت ڈال کر اس موقع پر ایک قوم بن جاتے ہیں۔ اس منظر کی حالیہ مثال ہم نے ابھی نندن والے واقعے میں دیکھی۔ اس سے پہلے بھی اے پی ایس کے معصوم شہید بچوں نے ہمیں ایک کردیا تھا۔ یعنی کہ ہمیں ایک قوم بننے کے لئے بد قسمتی سے کسی بڑے سانحے یا پھر کسی واقعے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ جو کہ بطورِ قوم لمحہ فکریہ ہے۔
اگر ہم حقیقت میں ایک قوم بن جائیں گے تو ہماری منزل ایک ہوجائے گی۔ لیکن موجودہ صورتحال میں جہاں سب کے مفادات جدا ہیں وہاں سب کی منزل کیسے ایک ہوسکتی ہے۔
منزل ایک کا مطلب بہت گہرا ہے جس کو میں اپنی اس تحریر میں نہیں سمجھا سکتا۔ لیکن اس کی مثال میں ضرور دے سکتا ہوں۔ دور نہ جائیں، نہ ہی کسی اور قوم کی تاریخ دیکھیں اپنے ہی بزرگوں کی مثال لیتے ہیں۔ یعنی یہ پاکستان جو کہ ہمارے بزرگوں کی ایک منزل تھا۔ جس کو ہمارے بزرگوں نے ایک قوم بن کر جدوجہد سے حاصل کیا۔ لیکن ہم ان کے اسلاف اور احساس کو فراموش کرکے اپنی دھن میں مگن ہیں۔ لہذا اس 23 مارچ یہ عہد کریں کہ ہم نے حقیقت میں ایک قوم، ایک منزل بننا ہے۔ نیز قومیت کے بنیادی اصولوں پر دوبارہ سے عمل پیرا ہونا ہے اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کی لاج رکھتے ہوئے اس مملکت پاکستان کے استحکام میں اپنے مفادات کو بھی پس پشت ڈال دینا ہے۔ بقولِ اقبال؛
بتانِ رنگ و خوں کو توڑکر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہوجا