Baap, Khamosh Dost
باپ، خاموش دوست
جوانی میں انسان باپ کو عجیب نگاہ سے دیکھتا رہتا ہے، جیسے باپ کو ہمارے مسائل، تکالیف یا ضروریات کا احساس ہی نہیں۔ یہ نئے دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتا۔ کبھی کبھی ہم اپنے باپ کا موازنہ بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ "اتنی محنت ہمارے باپ نے کی ہوتی، بچت کی ہوتی، کچھ بنایا ہوتا تو آج ہم بھی فلاں کی طرح عالی شان گھر، گاڑی میں گھوم رہے ہوتے"۔ "کہاں ہو؟ کب آؤ گے؟ زیادہ دیر نہ کرنا" جیسے سوالات انتہائی فضول اور فالتو سے لگتے ہیں۔
"سویٹر تو پہنا ہے، کچھ اور بھی پہن لو سردی بہت ہے۔ " انسان سوچتا ہے کہ طرز قدیم کی وجہ سے والد کو باہر کی دنیا کا اندازہ نہیں۔ اکثر اولاد اپنے باپ کو ایک ہی معیار پر پرکھتی ہیں۔ گھر، گاڑی، پلاٹ، بینک بیلنس، کاروبار اور اپنی ناکامیوں کو باپ کے کھاتے میں ڈال کر خود سُرخرو ہو جاتے ہیں۔ "ہمارے پاس بھی کچھ ہوتا تو اچھے اسکول میں پڑھتے، کاروبار کرتے۔ "
اس میں شک نہیں اولاد کے لئے آئیڈیل بھی ان کا باپ ہی ہوتا ہے لیکن کچھ باتیں جوانی میں سمجھ نہیں آتیں یا ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، اس ليے کہ ہمارے سامنے وقتی ضرورت ہوتی ہے یا دنیا سے مقابلے کا بُھوت سوار ہوتا ہے۔ جلد سے جلد سب کچھ پانے کی جستجو میں ہم بہت کچھ کھو بھی رہے ہوتے ہیں، جس کا احساس بہت دیر سے ہوتا ہے۔ بہت سی اولاد وقتی محرومیوں کا پہلا ذمہ دار اپنے باپ کو قرار دے کر ہر چیز سے بری الزمہ ہو جاتی ہے۔
وقت گزر جاتا ہے، اچھا بھی برا بھی، اور اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ انسان پلک جھپکتے ماضی کی کہانیوں کو اپنے ارد گرد منڈلاتے دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ جوانی، پڑھائی، نوکری، شادی، اولاد اور پھر وہی اسٹیج، وہی کردار، جو نبھاتے ہوئے ہر لمحہ اپنے باپ کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آ کر باپ کی ہر سوچ، احساس، فکر، پریشانی، شرمندگی اور اذیّت کو ہم پر کھول کے رکھ دیتا ہے۔
باپ کی کبھی کبھی بلاوجہ خاموشی، کبھی پرانے دوستوں میں بے وجہ قہقہے، اچھے کپڑوں کو ناپسند کر کے پرانوں کو فخر سے پہننا، کھانوں میں اپنی سادگی پر فخر، کبھی کبھی سر جُھکائے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں مگن ہونے کی وجہ، کبھی بغیر وجہ تھکاوٹ کے بہانے سرِ شام بتی بجھا کر لیٹ جانا، نظریں جھکائے، انتہائی محویت سے ڈوب کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا، سمجھ تو آنا شروع ہو جاتا ہے لیکن بہت دیر بعد۔
جب ہم خود راتوں کو جاگ جاگ کر دوسرے شہروں میں گئے بچوں پر آیت الکرسی کے دائرے پھونکتے ہیں، جب ہم سردی میں وضو کرتے ہوئے اچانک سوچتے ہیں کہ پوچھ ہی لیں، "بیٹا آپ کے ہاں گرم پانی آتا ہے؟" جب قہر کی گرمی میں رُوم کولر کی خنک ہوا بدن کو چُھوتی ہے تو پہلا احساس جو دل و دماغ میں ہلچل سی مچاتا ہے وہ "کہیں اولاد گرمی میں تو نہیں بیٹھی"؟
جوان اولاد کے مستقبل، شادی کی فکر، ہزار تانے بانے جوڑتا باپ تھک ہار کر اللہ تعالیٰ اور اس کی پاک کلام میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ تب یاد آتا ہے، ہمارا باپ بھی ایک ایک حرف، ایک ایک آیت پر رُک رُک کر بچوں کی سلامتی، خوشی، بہتر مستقبل کی دعائیں کرتا ہی ہوگا۔ ہر نماز کے بعد اُٹھے کپکپاتے ہاتھ، اپنی دعاؤں کو بھول جاتے ہوں گے۔ ہماری طرح ہمارا باپ بھی ایک ایک بچے کو نمناک آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دیتا ہوگا۔
سرِ شام کبھی کبھی کمرے کی بتی بجھا کر اس فکر کی آگ میں جلتا ہوگا کہ میں نے اپنی اولاد کے لئے بہت کم کیا؟ اولاد کو باپ بہت دیر سے یاد آتا ہے، اتنی دیر سے کہ ہم اسے چُھونے، محسوس کرنے، اس کی ہر تلخی، اذیت، فکر کا ازالہ کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک عجیب احساس ہے جو وقت کے بعد اپنی اصل شکل میں ہمیں بےچین ضرور کرتا ہے، لیکن یہ حقیقت جن پر بروقت عیاں ہو جائے وہی خوش قسمت اولاد ہے۔
اولاد ہوتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ باپ کا چھونا، پیار کرنا، دل سے لگانا، یہ تو بچپن کی باتیں ہیں۔ باپ بن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ پتہ نہیں باپ نے کتنی دفعہ دل ہی دل میں ہمیں سینہ سے لگانے کو بازو کھولے ہوں گے؟ پیار کے لئے اس کے ہونٹ تڑپے ہوں گے اور ہماری بےباک جوانیوں نے اسے یہ موقع نہیں دیا ہوگا۔ ہم جیسے درمیانے طبقہ کے سفید پوش لوگوں کی ہر خواہش، ہر دعا، ہر تمنا، اولاد سے شروع ہو کر اولاد پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔
لیکن کم ہی باپ ہوں گے جو یہ احساس اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں دلا سکے ہوں۔ یہ ایک چھپا، میٹھا درد ہے جو باپ اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ اولاد کے ليے بہت کچھ کر کے بھی کچھ نہ کر سکنے کی ایک خلش، آخری وقت تک ایک باپ کو بے چین رکھتی ہے اور یہ سب بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے، جب ہم باپ بنتے ہیں۔ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو باپ کے دل کا حال جیسے قدرت ہمارے دلوں میں منتقل کر دیتی ہے۔ اولاد اگر باپ کے دل میں اپنے لئے محبت کو کھلی آنکھوں سے وقت پر دیکھ لے تو شاید اسے یقین ہو جائے کہ دنیا میں باپ سے زیادہ اولاد کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔
ہمیشہ ٹوٹ کے ماں باپ کی کرو خدمت۔
ہیں کتنی دیر یہ بوڑھے شجر نہیں معلوم
ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں۔
باپ گھر میں درخت ہوتےہیں۔