Tum Sabhi Kuch Ho Batao Musalman Bhi Ho?
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ مسلمان بھی ہو؟
عمر اور اسلم دونوں نوجوان دوست پارک میں واک کرتے ہوئے ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے ہیں۔ عمر کہتا ہے اسلم کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہمیں دنیا میں کس مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے؟
اسلم: یار ہمارے آنے کا مقصد تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ "ہم نے انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے"۔ میرے خیال میں اس آیت مبارکہ سے مقصد حیات واضح ہو جاتا ہے کہ ہم دنیا میں کس مقصد کے تحت بھیجے گے ہیں۔
عمر: تو کیا تمہیں لگتا ہے کہ ہم اجتمائی طور پر اس مقصد حیات کو پورا کرنے کے لیے کوشاں ہیں؟
اسلم: اجمتائی طور پر تو نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ہم نے اس مقصد حیات کو میرے خیال میں مولوی حضرات کے ذمہ کر رکھا ہے اور اپنے آپ کو ہم اس کام سے بری ازمہ سمجھتے ہیں۔
عمر: ویسے کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم باقی کاموں میں سارا دن مصروف رہتے ہیں جو اسی دنیا میں ہی رہ جانے والے ہیں اور ایسا عمل جس کے لیے ہمیں بھیجا گیا اس کے لیے ہمارے پاس ٹائم ہی نہیں ہوتا یہ بات ہمارے ذہن میں ہی نہیں ہوتی۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور اسلام سے دور بھی ہوتے جا رہے ہیں۔
اسلم: اس کی کچھ وجہ ہمارا یورپ کے کلچر سے متاثر ہونا اور وہاں کی رسومات اپنانا اور ان جیسا بننے کی خواہش کرنا سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنا اور اپنے بچوں کو انگریزی تعلیم کی طرف زیادہ متوجہ کرنا انہی وجوہات سے ہمارے بچے اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
عمر: ان کا بھی کردار اپنی جگہ لیکن جو فرقہ واریت کا تماشا ہمارے ان مولوی حضرات نے لگایا ہوا ہے اس سے عوام میں جو نفرت اور انتہا پسندی پھیلتی ہے اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ ہر فرقے کا مولوی کہتا ہے ہم جو کہہ رہے ہیں وہ درست ہے اور دوسرے فرقوں والے غلط۔ لفط غلط تو میں نے احتیاطاً استعمال کیا ہے مولوی حضرات تو ایک دوسرے کے بارے میں انتہا کو پہنچ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اسلام سے بھی (نعوذباللہ) نکال دیتے ہیں۔
علامہ صاحب نے کہا تھا:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
اسلم: کاش ہمارا معاشرہ ان چیزوں سے پاک ہو جائے اور ہم دین اسلام کی چھتری تلے ایک ہو جائیں۔ ہم تو اتنے ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں کہ ایک فرقے والا دوسرے فرقہ کی مسجد میں نماز پڑھنا پسند نہیں کرتا اور بعض نے تو مسجد کے باہر لکھ رکھا ہے کہ فلاں فرقے والے داخل نا ہوں۔ یہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ کیا دین ہمیں اس چیز کی تعلیم دیتا ہے۔
عمر: یار بات وہی آ جاتی ہے کہ ہم نے دین مولوی حضرات کے ذمہ کر رکھا وہ ہمیں جس راستے پر لگا دیں ہم اسی پر چل پڑتے ہیں۔ اگر آج سے لوگ خود دین کو پڑھنا اور سمجھنا شروع کر دیں تو ایک دوسرے سے نفرت کے مسائل ہی پیدا نا ہوں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ خالصتاً ملا کا پھیلایا ہوا زہر ہے جو دن بدن تیزی سے اس معاشرے میں پھیلتا جا رہا ہے۔
اسلم: کاش کے ہمارے معاشرے میں ہر عالم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب جیسے عظیم علما کو اپنا رہنما بنا کر ہم سب کی اصلاح کے لیے اپنا کردار ادا کرئے۔ مگر ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے ایسے عظیم کردار والے کم ہی جنم لیتے ہیں جو محبت کا پیغام دیں اور بہترین اصلاح کریں۔
عمر: اجتماعی تبدیلی کے لیے ضروری ہے ہم سب سے پہلے انفرادی تبدیلی پر زور دیں اور اپنے آپ کو تبدیل کریں۔ اپنے اندر دین کی تڑپ پیدا کریں۔
اسلم: یہ تصور تو دین میں موجود ہے نہ کہ جو دنیا کہ کاموں میں مصروف رہے اور اللہ کے لیے وقت نا نکالے (نعوذباللہ) تو اللہ اسے مزید دنیا کے کاموں میں مصروف کر دیتا ہے۔ اور وہ دنیا کی الجھنوں سے نکل ہی نہی پاتا۔
عمر: اللہ تعالیٰ دن میں پانچ مرتبہ ہمیں اپنے گھر آنے کی دعوت دیتا ہے۔ اگر ہمیں اپنے مالک کی دعوت پر جانے کی توفیق نہیں ہوتی تو اس سے بڑی بد قسمتی ہمارے لیے کیا ہو سکتی ہے؟
اسلم: المختصر ہمیں اپنے خالق و مالک کی طرف خود بھی متوجہ ہونا چاہیے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دینی چاہیے۔ ہمیں نفرت کرنے کی بجائے محبت کا پیغام عام کرنا ہو گا۔ ایک دوسرے کے فرقوں پر تنقید کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے محبت کا جذبہ اور رشتہ قائم کرنا ہوگا۔ علامہ صاحب نے کہا تھا:
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
عمر: یار پوری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بعد تو ہم سب کو ایک ہو جانا چاہیے تھا لیکن ہمارے اختلاف ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے!
میرے خیال میں تو اس بات کا سادہ سا حل ہے کہ خود دین اسلام پر تحقیق کی جائے اور قرآن کو پڑھا اور سمجھا جائے اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر چیز کا حل بتا دیا ہے۔
اسلم: میرا تو یہ نظریہ ہے کہ ہر فرقے میں کوئی نا کوئی اچھی بات تو ہوتی ہی ہے اس کو پکڑ لیا جائے اور باقی باتیں جو سمجھ سے بالا تر ہوں ان کو چھوڑ دیا جائے اور کسی فرقے پر تنقید نا کی جائے جب تک ہم ایک دوسرے کو سمجھیں گے نہیں ہم ایک نہیں ہو سکتے اور ہمارا ایک ہونا اسلام کے لیے ضروری ہے ہمارے اپنے لیے ضروری ہے۔
عمر: یہ بات بھی ٹھیک ہے لیکن میں خود تحقیق کرنے کا حامی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے آخری کلام میں فرماتے ہیں کہ:"کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ اس میں بڑا اختلاف پاتے۔
یہ ایک ایسی بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں اور صاحبان عقل اس سے نصیحت حاصل کریں۔
کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے لگ گئے ہیں؟"
رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ:اللہ تعالی نے قلم کی عظمت کو بیان کرنے کی خاطر قلم کے ساتھ قسم کھائی ہے۔
لہذا ہمیں اسلام کے متعلق ہر بات کی گہرائی میں جانا چاہیے اور اس کی مکمل تحقق کر کے کسی بات پر تبصرہ کرنا چاہیے۔ اور سنی سنائی باتوں پر اور صرف مولوی صاحبان کے قولوں پر عمل کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ پھر ہی کہیں جا کر ہمارے اختلافات کم ہو سکتے ہیں۔
دونوں اسی دعا اور امید کے ساتھ اپنی گفتگو کا اختتام کرتے ہیں کہ ہم سب اسلام کے پرچم تلے ایک ہو جائیں اور علامہ کا خواب سچ ہو جائے کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر