Ye Nao Jamhoore
یہ "نوجمہورے"
اول اول جب اول فول قسم کے خطوط موصول ہوتے اوردلیل سے بات کی بجائے مکتوب نگار اپنے تعصب کا مظاہرہ کرتے تھے تو بہت غصہ آتا تھا۔ پھر وقت اوراساتذہ کی بدولت ملی رہنمائی کی وجہ سے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ کسی کے تھڑدلے پن پر ناراض نہیں ہونا چاہیے۔
ہر شخص اس امر کا خواہش مند ہوتاہے کہ لکھنے والے اس کی آنکھ سے دیکھیں، ان کے کانوں سے سنیں۔ اسی طرح کی سوچیں اور بولیں۔ جو لکھنے والا اس طرح نہیں کرتا وہ فلاں فلاں پارٹی اور شخصیت کا منشی، چٹی دلال، بکائو مال، عوام دشمن اور ضمیر فروش ہے۔ عوام صرف وہ ہوتے ہیں جو ایسے کسی بھی نمونے کے ہم خیال ہوں باقی نسلی غلام قرار پاتے ہیں۔
پچھلی نصف صدی کے تجربات بہت تلخ بھی ہیں اور کچھ بہتر بھی۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ آپ (لکھنے والے) تمام پڑھنے والوں کو خوش نہیں کرسکتے۔
قارئین اور بہی خواہوں کے خطوط موصول ہوتے رہتے ہیں۔ کام کی بات ہو، دلیل سے تنقید ہو تو جواب بھی عرض کرتا ہوں واہی تباہی اورفتوے بازی کو یکسر نظرانداز کردینا صحت اور کالم دونوں کے لئے اچھا ہوتا ہے۔ اساتذہ فرمایا کرتے تھے ہر شخص کی بات۔ سوال اورتنقید کا تحمل سے جواب دو کیونکہ وہ اخبار خرید کر پڑھتا ہے اس کا حق ہے کہ بات کرے سوال اورتنقید۔ لیکن نامعلوم ولد نامعلوم کا خط ردی کی ٹوکری کا حصہ بنادو۔ یہی کرتا ہوں۔
کچھ عرصہ قبل ان سطور میں دو خط شائع کئے ان پر ایک "نوجمہورے" نے پھبتی کسی "اوئے تجھے جانتا کون ہے جو خط لکھے گا تم جیسے لوگ مشہوری کے لئے خط گھڑلیتے ہو اور پھر بھاشن شروع"۔
یہ "نوجمہورے" بڑی دلچسپ مخلوق ہیں صرف سوا سال پہلے یہ فوجی جنتا کے پجاری اسلامی صدارتی نظام کے دیوانے، بھارت کو روئے زمین سے مٹادینے کے جذبات رکھتے تھے۔ آجکل فوجی جنتا کے ویری ہیں۔ عمران خان خدا کے بعد ان کی آخری امید ہے۔
ان میں اکثر اب بھارت کی ترقی اور پاکستان کی پسماندگی کا تجزیہ کرتے ہوئےاپنے عاق شدہ "والد " اور سیاسی خاندانوں کو سارے مصائب و مشکلات اور پسماندگی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ "کل کی طرح" "آج" بھی درست کہہ رہے ہوں لیکن جس طرح کل ایک خاص قسم کی نفرت کا شکار تھے آج بھی ہیں۔ ان "نوجمہوروں" سے دامن بجاکر رہنے میں بہتری ہے۔
یہ مخلوق خود جس کی چاہے بہن بیٹی بہو کی چسکے دار داستان گھڑے اسے وائرل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائے "بابا کوڈا" جیسے نامعلوموں کو دانشوڑ کے طور پر پیش کرے اس کا انہیں حق ہے لیکن اگر آپ پلٹ کر آئینہ دیکھائیں گے تو رٹی رٹائی بات جواب میں سننے کو ملے گی "وہ تو ذاتی زندگی کے معاملات ہیں آپ کون ہوتے ہیں نجی زندگی میں مداخلت کرنے والے"۔
جی بالکل بجا فرمایا مگر یہ ذاتی زندگی میں گھس بیٹھنے کا راستہ آپ نے ہی دیکھایا ہے۔
نصف صدی کی قلم مزدوری کا تجربہ یہ ہے کہ تنقید برداشت کرنے والوں میں اے این پی والے پہلے نمبر پر ہیں۔ اے این پی کے لوگوں کی ایک خاصیت یہ ہے کہ جواب دلیل سے دیتے ہیں۔ اشاروں کنایوں میں بھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتے جو کسی گالی کے قریب سے گزرتے ہوں۔
تنقید کو یہودوہنو کی سازش اپنے صالحین قرار دیتے ہیں۔ صالحین یعنی جماعت اسلامی والے، ان کا خیال ہے کہ جو بھی شخص ان پر تنقید کررہا ہے وہ اسلام کی عالمگیریت کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ ایک زمانے میں دیسی کمیونسٹوں کے مزاج اور اوصاف صالحین جیسے ہوا کرتے تھے دیسی کمیونسٹوں کو تنقید کرنے والا سی آئی اے کا ایجنٹ لگتا تھا۔ لگتا کیا تھا وہ ثابت کرکے چھوڑتے کہ ہم پر تنقید کرنے والے کا کھپڑ دادا برطانوی راج کے توسط سے سی آئی اے کو پیارا ہوا۔
خیر اب وہ دیسی کمیونسٹ ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ ان کی جگہ فرقہ پرستوں نے "پُر" کردی ہے۔
کسی فرقہ پرست تنظیم پر تنقید کیجئے جواب میں جو کچھ سننے کو ملے گا وہ اگر آپ کے خاندانوں کے مرحومین سن سکتے ہوتے تو قبروں سے نکل کر احتجاجاً دھمال ڈالتے۔
پپلزپارٹی پر تنقید بھی بہت زیادہ ہضم نہیں ہوتی اِکادُکا جیالا تنقید برداشت کرتا ہے۔ زیادہ تر تنقید کرنے والے کو جھٹ سے ضیائی رجیم کا پرو وردہ قرار دیتے ہیں یا اسٹیبلمنٹ کا ایجنٹ۔ ایک زمانے میں (ن) لیگ پر تنقید کو اسلام اور پاکستان دشمنی کہا سمجھا جاتا تھا اب لیگی کچھ مہربانی کرتے ہیں۔ اسلام اور پاکستان کا فتویٰ نہیں دیتے بہت غصہ کریں تو کہتے ہیں تم لوگ شریف خاندان کی قومی خدمات سے جلتے ہو مخالفین سے پیسے لے کر تنقید کا ڈرامہ کرتے ہو۔
آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کی سابق ڈارلنگ تحریک انصاف والے تو ہمیشہ سے چھوئی موئی ہی ہیں ان کے نزدیک ہر وہ شخص جو پی ٹی آئی اور عمران کا مخالف ہے وہ ذہنی نسلی غلام ٹوڈی اورپیسے کا پجاری ہے۔
سوا سال پہلے یہی انصافی پاک فوج کی محبت میں چاروں شانے چِت تھے آجکل انہیں جمہوریت کا درد چین سے نہیں رہنے دیتا ان کے خیال میں عمران خان کروڑوں لوگوں کی خدا کے بعد آخری امید ہے جبکہ خود خان صاحب نے اپنے جو جو فضائل بیان کئے ہیں وہ جمع کرکے اگر کتاب مرتب کی جائے تو بہت سوں کا "بھلا" ہوگا۔
ابھی دو دن قبل انہوں نے خود کو چھوڑ جانے والوں بارے ایک سوال کے جواب میں جنگ خندق کے بعد نازل ہوئی ایک آیت کو بطورمثال پیش کیا۔ ان نوانقلابی نوجمہوروں کی زبان دانی پر گرفت کریں تو جواب ملتا ہے ہم سے پہلے بھی یہ کام ہوتے تھے۔ اب ہم کرتے ہیں تو برائی کیوں۔
ان نوجمہوروں کا خیال ہے کہ وہ ایک انقلاب کے لئے جدوجہد کررہے ہیں تبدیلی اب انقلاب کی طرف بڑھ گئی ہے۔ بدزبانی میں انہوں نے ماضی کے سارے بدزبان دائیں بائیں اور فرقوں و صالحین کو مات دے دی ہے۔
ان دنوں یہ اپنے ہر مخالف کو فوج کا پٹھو کہتے نہیں تھکے جب ان کی جماعت جنرل پاشا سے قمر جاوید باجوہ براستہ چودھری ظہیر الاسلام و فیض حمید پالی جارہی تھی اور آئی ایس پی آر والے عمران خان کے "ون مین شو" کے لئے میڈیا منیجری کرتے تھے تب ان نوجمہوروں کا کہنا ہوتا تھا "پاک فوج سے محبت کے لئے ماں کا نیک اور باپ کا ایک ہونا ضروری ہے"
ان کے نزدیک عمران خان کے علاوہ سارے چور اور لٹیرے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ چوریوں، لوٹ مار کے درجنوں الزامات اور مقدمات عمران خان، ان کی اہلیہ اور بہنوں کے خلاف بھی درج ہیں۔
ہمارے ہاں ہر جماعت کے دیوانوں، متوالوں، جیالوں نوجمہوروں وغیرہ وغیرہ کو اپنے اپنے لیڈر میں گنگا جمنا جیسی خصوصیات نظر آتی ہیں اور مخالف لیڈر چور اچکے ان کے حامی ذہنی غلام۔ یہ سب کیوں ہے اس کی وجہ اس ریاست کا سکیورٹی اسٹیٹ ہوناہے۔
سکیورٹی اسٹیٹ میں بالادست طبقات اپنے تام جھام کے لئے ہر شخص اور طبقے کو گالی دلوانے کے لئے لشکر پالتے ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا بالادست طبقہ خود اسٹیبلشمنٹ ہے اس نے آج تک جتنے لشکر پالے وقتی طورپر ان لشکریوں نے خدمات ضرور انجام دیں پھر ایک دن پلٹ کر اسٹیبلشمنٹ کے گلے پڑگئے۔
بٹوارے کے بعد سے آج تک اسٹیبلشمنٹ نے جتنے مذہبی، فرقہ پرست اور دوسرے لشکر بنوائے ایک ایک کرکے یاد کیجئے ان کی خدمات اور پھر اسٹیبلشمنٹ سے ان کی لڑائی کو۔ پڑھنے والوں سے دلی معذرت بات سے بات نکلتی چلی گئی۔
میری رائے یہ ہے کہ ہمیں (ہر شخص کو) مختلف الخیال لکھنے والوں پر چاند ماری کی بجائے ان کے لکھے اور فہم پر دلیل سے بات کرنی چاہیے۔ ہم اگر مان لیں کہ اس وقت عمران اورپی ٹی آئی کے خلاف لکھنے والے مخالفین کے تنخواہ دار ہیں تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ نوجمہورے جو کل تک اسٹیبلشمنٹ کے نمک خوار تھے آج بھی کسی نہ کسی طرح مفاد اٹھاہی رہے ہیں۔ پتہ نہیں ہم سبھی یہ کیوں چاہتے ہیں کہ جو ہم سوچتے بولتے ہیں سبھی ایسا کریں۔ ایسا کبھی ہوا نہ ممکن ہے کسی بھی معاشرے میں مختلف الخیال لوگوں کا ہونا ہی زندگی کی علامت ہے۔
پچھلی نصف صدی اور بالخصوص گزشتہ 20 برسوں کے دوران جب سے سوشل میڈیا کا بیڑا اندھوں کے پائوں کے نیچے آیا ہوا ہے میرے لئے بدترین بات یہ ہوتی ہے کہ کسی تحریر پر دلیل سے بات کرنے کی بجائے منہ پھاڑ کر کہہ دیا جاتا ہے تم تو شیعہ ہو۔ عجیب بیہودگی ہے یہ۔
کچھ لوگ جیالا ہونے کی پھبتی بھی کس دیتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور اے این پی کے علاوہ سرائیکی قوم پرستوں کے لئے نرم گوشے سے کبھی انکار نہیں کیا۔
آخری بات یہ ہے کہ برداشت کیجئے تاکہ برداشت کئے جائیں۔