Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Haider Javed Syed/
  4. Ubaid Khawaja Ka Paigham Aur Hamari Maroozat

Ubaid Khawaja Ka Paigham Aur Hamari Maroozat

عبید خواجہ کا پیغام اور ہماری معروضات

سرائیکی قوم پرست عبید خواجہ امریکہ میں مقیم ہیں۔ یہ غمِ روزگار آدمی کو قریہ قریہ لئے پھرتا ہے۔ خواجہ سئیں بھی اسی غمِ روزگار کے اسیر ہوئے۔ اچھا ہے ویسے بھلے وقتوں میں یہاں سے نکل گئے۔ جبر و استحصال سے عبارت جس نظام سے یہاں کے لوگوں کو واسطہ ہے، کم از کم اس سے تو محفوظ ہیں۔

اپنی مٹی کی خوشبو، بچھڑنے والوں کی تُربتیں سجنڑ بیلی جنم بھومی کی گلیاں کسے یاد نہیں آتے۔ عبید خواجہ بھی یادوں کی زنبیل پھرولتے لکھتے بولتے رہتے ہیں۔ جنم بھومی۔ سرائیکی وسیب کی سنگت سے رابطہ میں رہتے ہیں۔

کچھ دیر قبل ان کا پیغام (آڈیو میسج) موصول ہوا، رکئے ذرا صبر کیجئے۔ یہ پیغام ہمارے لئے نہیں بلکہ فقیر راحموں کے لئے تھا ہمیں تو اسی نے سنایا خواجہ سئیں کا پیغام۔ وہ کہہ رہے تھے "سرائیکی نثری نظموں کا سلسلہ اچھا ہے۔ بے شک اردو میں بھی نظمیں لکھیں مگر مشورہ یہ ہے کہ سرائیکی میں ہی لکھیں"۔ فقیر راحموں آجکل اللہ سائیں سے گفتگو میں مصروف ہے روز نیا قصہ یا شکوہ چھیڑ لیتا ہے۔

اس کی سرائیکی نظموں کا جاوید رضا اردو میں اور مبشر علی فاروقی انگریزی میں ترجمہ کررہ ہیں۔ کبھی کبھی اردو اور سرائیکی میں بھی مشترکہ اظہار کا تجربہ بھی کرلیتا ہے۔ گزشتہ روز کی ایک نظم کی آخری چار سطریں سرائیکی میں تھیں۔

اس پر ہم نے پوچھا بھی یار فقیر یہ کیا۔ بولا شاہ جی، مجھے ان چار سطروں کے لئے اردو کے الفاظ کا سہارا لینے سے کہیں بہتر لگا کہ یہ سرائیکی میں لکھی جائیں۔

خواجہ سئیں نے ایک فرمائش ہم سے بھی کی ہے وہ یہ کہ سرائیکی قومی تحریک کی تاریخ کے وہ حصے ضبط تحریر میں لائیں جو ہمارے آنکھوں دیکھے ہیں۔ مشاہدات و تاثرات بھی ہوں اور مفصل احوال بھی۔ ہمارے لئے انکار ممکن نہیں ان سے وعدہ تو کیا کرلیا ہے کوشش بھی کریں گے کہ اس پر کچھ نہ کچھ لکھ کر تاریخ کی امانت سرائیکی وسیب کی نئی نسل اور آئندہ نسلوں کے سپرد کردیں۔

ویسے کچھ عرصہ قبل سرائیکی تحریک میں شامل مختلف احباب کے درمیان ان سطور کے ذریعے مکالمہ بھی شروع کرا دیا تھا ساتھ ساتھ تحریک کے ماہ و سال کے تذکرے بھی ہوئے۔ یاد پڑتا ہے کہ دس بارہ کالم اس سلسلے کے شائع ہوئے۔ پھر ایک حاسد نے الزام لگایا کہ مکالمے کے لئے کوئی خط وغیرہ نہیں لکھے جارہے ہم دوسروں کے ناموں سے خطوط لکھ کر کالم میں شائع کرکے بات آگے بڑھارہے ہیں۔

اچھا یہ ہوا کہ خطوط لکھنے والے دوستوں اور ذمہ داروں نے اس بڑبولے حاسد کے دعویٰ کی تردید کردی لیکن ہمیں دکھ ضرور ہوا۔ دکھ کی وجہ یہی ہے کہ اس موصوف سے ہمارا ذات، زمین اور دوسری کسی چیز کا رشتہ ہے نہ جھگڑا پھر بھی انہوں نے الزام لگادیا کہ جو خطوط کالم میں شائع ہورہے ہیں وہ مخصوص معاوضہ پر ہم خود لکھتے ہیں۔

مخصوص معاوضے پر خود لکھ سکنے کی عادت اگر ہم نے پالی ہوتی تو کم از کم کل اور آج کے ابتر حالات میں سلیقے اور ہمت سے جینے کی بجائے دنیاوی مقام ہی بلند کرلیتے۔ بدقسمتی سے سب سے آسان کام الزام لگانا ہے وہ بھی ثبوت کے بنا۔ اس پر ستم یہ ہے کہ جتنی دیر میں آپ اپنی بات کہتے اور سچ سامنے لاتے ہیں بڑبولے حاسد اور مخالف کا جھوٹ کرہ ارض کے سات پھیرے لگاچکا ہوتا ہے۔

خیر کوئی بات نہیں ہمارے وسیب کے لوگوں اور دیگر احباب کو ہمارے بارے میں اچھی جانکاری ہے اسی لئے بہتان تراشوں کو ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی۔

بات ہورہی تھی عبید خواجہ کے پیغام کی نصف جو فقیر راحموں کے لئے ہے اور نصف ہمارے لئے۔ اس کی شاعری میں ہم اس طرح مداخلت نہیں کرسکتے جیسے موصوف ہمارے کالموں میں کودتے ہیں۔

ابھی کہہ رہے تھے سنیتاڈی رچی کو جانتے ہو عرض کیا جی نہیں۔ بولے کرلی تم نے کالم نگاری۔ اس وقت بھی موصوف اپنی ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں کہتے ہیں کل جو شہید سید محسن نقوی پر کالم لکھا اس میں نقوی صاحب کی مجھ سے بے پناہ محبت اور شفقت کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ ناراضگی بنتی تو ہے مگر یہ تو کالم نگار کی مرضی ہے وہ کسی کا ذکر کرے یا نہ کرے۔ دھمکی دے رہے ہیں کہتے ہیں"تیکوں ڈیکھ گھنساں"۔

اللہ خیر کرے اب ان سے بھی نبڑنا پڑے گا۔ پہلے ہی دشمن اور شریک کیا کم ہیں کہ ان میں ایک اور کا اضافہ ہوا۔

عبید خواجہ کی بات درست ہے سرائیکی قومی تاریخ لکھی جانی چاہیے۔ پروفیسر اکرم میرانی، محبوب تابش، ظہور دھریجہ اور کچھ دوسرے دوستوں کا اس حوالے سے خاصا کام ہے اور وہ پڑھے جانے کے لائق بھی۔ وسیب کے مشترکہ محبوب رانا محبوب اختر کی تصنیف "مونجھ سے مزاحمت تک" بھی شاندار کتاب ہے۔ البتہ عبید خواجہ جو چاہتے ہیں ان ضمن میں ہماری رائے یہ ہے کہ اس کے لئے ایک سے زیادہ دوستوں کو کام کرنا چاہیے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ معروف صحافی امجد فاروق ڈاہا نے دو اڑھائی برس قبل اس موضوع پر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کچھ صلاح مشورہ بھی کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سرائیکی تحریک کی مختلف شخصیات کے تفصیلی انٹرویو کرکے انہیں ویڈیوز کی صورت میں محفوظ کرنے کے علاوہ ایک کتاب بھی مرتب کی جائے۔

روزی روٹی کا مسئلہ پورا بندہ کھاجاتا ہے۔ لکھنے پڑھنے اور تحقیق وغیرہ کے لئے قلم مزدوروں کے پاس وقت بہت کم بچتا ہے۔ جن کے پاس وقت اور وسائل ہیں وہ "پدرم سلطان بود" کی مثال بنے اٹھلاتے پھرتے ہیں۔

سرائیکی قومی جدوجہد کی تاریخ اس لئے بھی لکھی جانی چاہیے کہ پچھلے کچھ عرصہ سے ایک پڑوسی (فقیر راحموں کے بقول غاصب رنجیت سنگھ کے وارث بننے والے) قوم کے دانشور کہلانے والے خواتین و حضرات جس طرح تاریخ کو مسخ کررہے ہیں اس کا جواب دیا جانا چاہیے۔

یقیناً یہ جواب ان "دانشوروں" کی سطح پر اتر کر نہیں دیا جانا چاہیے بلکہ تاریخ دلیل، حوالہ جات اور ماہ و سال کے حساب سے سرائیکی قومی تاریخ کا مقدمہ ضبط تحریر میں لانے کی ضرورت ہے۔

ہماری نئی نسل اور آئندہ نسلوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ رنجیت سنگھ نے محض دوسو سال پہلے ملتان پر قبضہ کر کے اسے اپنے نومولود پنجاب میں شامل کیا تھا اس سے بہت پہلے جب محمود غزنوی ملتان پر حملہ آور ہوا تھا تو ملتان ایک زندہ ریاست کے طور پر وجود رکھتا تھا۔

پھر راجہ داہر کے عہد کے سندھ اور اس کی حدود کو بھی دیکھنا ہوگا۔ حملہ آوروں کی اولادوں کی مسخ شدہ تاریخ میں جینے کی بجائے ہماری (سرائیکیوں کی) آئندہ نسلوں کو اپنی تاریخ جاننے پڑھنے اور اس پر فخر کا حق ہے۔

کم از کم مجھے فقیر راحموں کی اس بات سے کُلی اتفاق ہے کہ کسی کی قومی شناخت پر قبضہ گیری پر مبنی قومیت کا زبردستی ٹھپہ لگانا ایسے ہی ہے کہ آپ کسی کی ولدیت تبدیل کردیں جبراً۔ اس پر دو آراء نہیں کہ یہ کام ہونا چاہیے۔ سرائیکی قومی تاریخ ہی ہمیں بتاسکتی ہے کہ مختلف وقتوں کی سلطنتوں کے پولیٹیکل ایجنٹ کا کردار ادا کرنے والے پیر میر سردار اور مخدوم وغیرہ کون تھے اور حملہ آوروں کے خلاف دھرتی زادوں کی مزاحمت میں کون کون شریک تھا۔

اس بدقسمتی کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ پچھلے چند برسوں سے وسیب میں عجیب ماحول بنا ہواہے کوئی شخص دوسرے کے وجود کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ سوشل میڈیا پر پسندیدہ شخصیات کے حق میں باتیں کرنے والے دوسروں کے گریبانوں سے الجھتے ہیں۔

یہ نادرست رویہ ہے اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔ اصلاح کے لئے پہل بہرطور ان شخصیات کو ہی کرنا ہوگی جن کے پیارے دوسروں کے کپڑے اتارنے پر بضد ہیں۔

پھر یہ بات بھی سمجھنا ہوگی کہ قومی تحریک طبقاتی تحریک نہیں ہوتی۔ سرائیکی صوبے کے قیام کے لئے جاری قومی تحریک میں وسیب میں آباد تمام لوگ اور طبقات برابر کے حصے دار ہیں۔ جو طبقہ تحریک میں شریک ہو وہ اپنا فرض ادا کرے گا جو لوگ شریک نہیں ہوتے انہیں طعنہ دینے کی بجائے وقت کا انتظار کرنا چاہیے کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو کہ وہ قومی تحریک کے قافلے سے الگ رہ گئے اس کا نقصان وسیب کو ہوا۔

مکرر عرض ہے تاریخ کی ایک مفصل کتاب بہرطور لکھی جانی چاہئے بہتر ہوگا کہ چند سینئر سنگتیوں پر مشتمل ایک بورڈ بنادیا جائے۔ وہ مختلف دوستوں کے ذمہ ان کے حصہ کا کام لگائے تاکہ وہ اپنے اپنے شعبہ اور ذمہ لگائے گئے حصے کے حوالے سے کام کریں۔

مثال کے طور پر سرائیکی پارٹی کی قیادت کو مرحوم تاج محمد خان لنگاہ کی سوانح عمری لکھوانی چاہیے۔ یہ کام خود ان کی صاحبزادی ڈاکٹر نخبہ لنگاہ صاحبہ بھی کرسکتی ہیں۔ مرحوم حمید اختر شاہین، مرحوم سردار اکبر خان ملکانی، مرحوم منظور بوہڑ، مرحوم استاد فدا حسین گاڈھی، وسیبیوں کے یار دلدار مرحوم صوفی تاج محمد خان گوپانگ اور عمر علی خان بلوچ کے خاندانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان بزرگوں کی سوانح عمریاں مرتب کروائیں۔

یہ تاریخی دستاویزات ہوں گی۔ یہ مرحوم بزرگ سرائیکی وسیب کی قومی جدوجہد کے روشن کردار تھے۔ مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اگر یہ کام ہوجائے تو تاریخ اور پرعزم شخصیات کے حوالے سے نصف درجن کتابوں کا تحفہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو دے سکتے ہیں۔

Check Also

Ache Rishte Kyun Nahi Milte

By Syed Badar Saeed