Susrali Shehar Mein Phansa Aadmi
سسرالی شہر میں پھنسا آدمی
گزشتہ شب تبدیلی اور انقلاب کے متاثرین میں شامل بھانجوں نے اپنے ماموں کو اے ون چائے کی دعوت دی اور پھر گھنٹے فضائل عمران خان سناتے رہے۔
شیخوپورہ کے کمپنی باغ کے پہلو میں ریلوے سٹیشن کی طرف جاتی اس سڑک پر اپنے وقت کے معروف مسلم لیگی چودھری محمد حسین مرحوم چٹھہ کی اقامت گاہ بھی ہے۔ مرحوم بہت دلچسپ اور "سکہ بند" مسلم لیگی تھے۔ اللہ بخشے بہت خوبیاں تھیں ان میں اصل نسل خوبی یہ تھی کہ مرحوم مسلم لیگی ہونے کی ساری تاریخی "شرائط" پر پورا اترتے تھے۔
خیر مرحوم چٹھہ صاحب اور ان کی لیگی ہونے کی اصل نسل شرائط پوری کرنے والی باتیں ہمارا آج کا موضوع نہیں ویسے بھی شرفا اپنے سسرال کے شہر اور لوگوں کا احترام ہی کرتے ہیں یہی ایک پریت جگ جہان کی ہے۔
شیخوپورہ ہمارا سسرالی شہر ہے۔ اس شہر کے ایک ماڈل گرلز ہائی سکول میں ہماری خاتون اول لگ بھگ 39 برس پرنسپل رہیں۔ اگست 1987ء سے قبل ہم لاہور میں ماڈل ٹائون کے این بلاک والے فلیٹس میں مقیم تھے پھر خاتون اول ہمیں رخصت کرکے شیخوپورہ لے آئیں۔
اس "رخصتی" کا پس منظر یہ تھا کہ ہم لاہور میں ہفتہ روزہ "رضاکار" کے ایڈیٹر تھے اور بیگم صاحبہ شیخوپورہ میں سکول کی پرنسپل۔ سنجوگ کے دس پندرہ دن بعد ہم نے باہمی مشاورت سے فیصلہ کیا کہ انہیں روزانہ لاہور سے شیخوپورہ جانے آنے میں مشکل ہوگی اس لئے نقل مکانی کرلیتے ہیں۔ بس سامان ٹرک پر لدوایا اور شیخوپورہ کے ہوگئے۔
پہلا لطیفہ یہ ہوا کہ ہمارے برادر نسبتی سید عدنان علی زیدی سونی پتی اپنے ایک کزن اور دو دوستوں کے ہمراہ سامان لے جانے کے لئے لاہور آئے۔ سامان کی ٹرک میں منتقلی کے دوران ان سے ایک مزدور نے کہا، شاہ جی آپ کے بہنوئی کے گھر سے کتابوں اور رسالوں کے انبار کے سوا کچھ اور نکل ہی نہیں رہا۔ گھریلو سامان بہت مختصر ہے۔ کتابوں اور رسالوں کی ردی زیادہ ہے۔
عدنان زیدی مسکرائے اور بولے "ابے سسرے اگر تجھے کتابوں، رسالوں کی "ردی" کی حقیقت پتہ ہوتی تو ٹرک پر مزدوری کیوں کرتے"۔
لیجئے 14اگست 1987ء کو ہم شیخوپورہ سے بیگم کو رخصت کرکے لاہور لائے تھے اور پھر 30اگست کو بیگم ہمیں رخصت کرکے شیخوپورہ لے آئیں۔ ابتداً ہمارا اس نئے شہر میں تعارف بڑا دلچسپ ہوتا تھا۔
تعارف کرانے والا بتاتا یہ حیدر جاوید سید ہیں اقبال پارک والے ماڈل گرلز ہائی سکول کی پرنسپل مسز زیدی کے شوہر۔ وہ تو شکر ہے کہ "رضاکار" کا ایڈیٹر ہونے کی وجہ سے آئی ایس او اور ٹی جے پی کے کارکنان و ہمدردان کا ایک طبقہ ہمیں بھی جانتا تھا اس وجہ سے یہ معرفت بیگم والا تعارف کچھ ہی عرصہ رہا۔ رضاکار پھر مساوات اور بالآخر مشرق لاہور کی ملازمت کے دنوں میں ہم نے برسوں شیخوپورہ سے لاہور کا صبح شام سفر کیا۔
کئی برس تو بذریعہ ٹرین آمدورفت رہی۔ ٹرین میں سفر کرنے والے شیخوپورہ کے بعض احباب سے دوستی بنی۔ بہت ساروں سے یہ احترام بھرا تعلق آج بھی قائم ہے ان میں ایک سے بڑھ کر ایک شاندار انسان تھا اور ہے۔ خواجہ دبیر حسین اس گروپ کی رونق تھے۔
انکم ٹیکس کے محکمہ میں ملازمت کرتے تھے انہوں نے شیخوپوری دوستوں میں سے ہر دوست کے نام کے ساتھ اس کا محکمہ لگاکر آگے شاہ کی عرفیت باندھ رکھی تھی مثلاً شیخ نصیر، ایریگیشن شاہ، عاشق ڈوگر پی ٹی سی ایل شاہ۔ خود خواجہ دبیر انکم ٹیکس شاہ۔ ہمیں وہ صحافی شاہ کہتے بلاتے تھے۔ 2016 میں اپنی صاحبزادی فاطمہ حیدر کو لاہور کے کنیئرڈ کالج میں داخلہ ملنے پر خاتون اول کے ہمراہ 2017ء میں لاہور منتقل ہوا اور اب تک ایک مقامی ہجرت کے باوجود جوہر ٹائون میں ہی مقیم ہوں۔
خاتون اول اپنی ریٹائرمنٹ کےبعد ایک نجی ہائی سکول کی پرنسپل بننے کی وجہ سے ہمیشہ شیخوپورہ ہی میں رہیں بس ہم شہر شہر گھومے اس عرصہ میں ملازمت کے سلسلے میں طویل عرصہ پشاور میں بسر ہوا۔ تب مشرق اور فرنٹیئر پوسٹ گروپ کے اردو اخبار "میدان" کے علاوہ روزنامہ "آج" سے بھی منسلک رہا۔
یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک شب پشاور سے شیخوپورہ پہنچا۔ موٹروے انٹر چینج پر اتر کر باہر شہر جانے کے لئے سواری کی تلاش میں نکلا تو پولیس کے ساتھ فوجی اہلکاروں نے دھرلیا۔ بندہ پشاور سے آیا تھا داڑھی بڑھی ہوئی اور حلیہ بھی انہیں مشکوک لگا۔ بس ایک لمحہ کے لئے تو اندھے کے پائوں تلے بٹیرا آگیا۔
سوال جواب کا سلسلہ پتہ نہیں کیوں انسپکٹر اور کپتان صاحب بہادر کو مطمئن نہ کرسکا۔ دونوں بضد تھے کہ شیخوپورہ آنے کی وجہ کیا ہے۔ عرض کیا میرا گھر ہے شہر میں، بیگم یہاں ایک ہائی سکول کی پرنسپل ہیں۔ اس جواب پر انسپکٹر اور کپتان نے مزید مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔
ان لمحوں مجھے ایسا لگا کہ یہ ناکے والے مجھے کوئی عالمی دہشت گرد سمجھ رہے ہیں۔ غالباً اگلی صبح جو چند گھنٹے بعد نمودار ہونا تھی، فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے شیخوپورہ آنا تھا۔
بہرحال میں نے کپتان سے کہا میں بس ایک فون کرلوں ایک آدھ جملے کے بعد اس نے فون کرنے کی اجازت عطا فرمادی۔ ایک عزیز کو جو ان دنوں بری فوج میں اچھے منصب پر فائز تھا، فون کیا۔ شب کے تین بجے فون کرنے پر وہ حیران ہوئے۔ عرض کیا شاہ جی یہ آپ کے محکمہ کا کپتان مجھ فقیر کو بڑا ہی دھانسو قسم کا دہشت گرد سمجھ بیٹھا ہے اسے یقین ہی نہیں آرہا کہ میں پشاور میں کسی اخبار کا ایڈیٹر ہوں۔
عزیز نے فون کپتان کو دینے کا کہا۔ میں نے موبائل کپتان کی طرف بڑھادیا۔ کیپٹن کو جب ٹیلیفون کی دوسری جانب موجود عزیز کے محکمہ جاتی منصب کا تعارف ہوا تو وہ اپنی جگہ مودب ہوگیا۔ خیر گفتگو تمام ہوئی ایک جملہ آج بھی یاد آتا ہے۔
کپتان فون پر کہہ رہا تھا، کرنل صاحب یقین کیجئے اس وقت اگر آپ اپنے کزن کو دیکھیں تو پہلی نظر میں القاعدہ کا دہشت گرد ہی سمجھیں گے۔ دوسری جانب سے کچھ کہا گیا جس پر موصوف نے ہلکا سا "احترام بھرا" قہقہہ لگایا اور خدا حافظ کہتے ہوئے فون بند کردیا۔
اب کیپٹن بولے، بخاری صاحب (پہلے وہ مجھے صوفی کہتے رہے) چلیں میں آپ کو گھر ڈراپ کردوں۔ اب انسپکٹر اور پولیس اہلکاروں کو کیپٹن کے اس انداز سے سمجھ میں آیا کہ بندہ دہشت گرد ورد نہیں بلکہ ہلکی پھلکی توپ چیز ہے۔
خیر ہم فوجی گاڑی میں کپتان کے ساتھ سوار ہوکر انٹرچینج سے شہر کی طرف روانہ ہوئے تو وہ بولے بخاری صاحب آپ نے یہ حلیہ کیوں بنارکھا ہے؟ میں نے ہنستے ہئے کہا یار بنا نہیں رکھا بس ڈیڑھ ماہ بعد گھر آیا ہوں صبح اپنے مستقل مشیرِ زلف تراشاں سے حجامت وغیرہ بنوائوں گا پھر بندہ بن جائوں گا اس بات پر وہ نوجوان خوب لطف اندوز ہوا۔
پھر کہنے لگا آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ صبح چیف صاحب (جنرل پرویز مشرف) شیخوپورہ آرہے ہیں اس لئے ناکہ بندی اور چھان بین کی یہ سختی ہے۔ میں نے پوچھا یار یہ شناختی کارڈ اور سرکاری کارڈ دیکھ کر بھی آپ کو یقین کیوں نہیں آیا کہ میں شریف شہری ہوں؟
کہنے لگا بخاری صاحب گھر پہنچ کر ایک بار میری درخواست پر شیشے میں ملاحظہ کیجئے گا کہ اس وقت آپ کیا لگ رہے ہیں۔ سچ پوچھیں تو میں نے اس نوجوان کیپٹن کے مشورے پر سوفیصد عمل کرتے ہوئے آئینہ میں ایک بار اپنا تنقیدی جائزہ لیا تب مجھے بھی احساس ہوا کہ وہ بیچارے سچ ہی سمجھ بیٹھے تھے۔
ارے شیخوپورہ کے ذکر کے ساتھ ہی کیا کیا بھولی بسری باتیں اور قصے یاد آگئے۔ گزشتہ سپہر سسرالی شہر میں آمد ہوئی بڑے عرصے بعد دو تین دن یہاں رہنا ہے عزیزواقارب اور دوستوں سے ملاقات ہوئے طویل عرصہ بیت گیا۔
پچھلی شام برادرم سہیل احمد سے رابطہ ہوا۔ پروفیسر و مبلغِ پیلیات و ذاکر مصائب گڑھی خدا بخش عدیل بخاری سے بات ہوئی۔
پچھلی شب کے ابتدائی حصہ میں تین عدد بھانجے اپنے ماموں کو لے اڑے۔ شاندار گرما گرم چائے پلانے کے ساتھ دو بھانجوں نے فضائل عمران خان سناسناکر مت ماردی۔ دونوں بھانجوں سید قاسم علی زیدی اور سید حسین عباس زیدی المعروف باوا سرکار زیدی صاحب فضائل عمران خان سناتے ہوئے بتارہے تھے ماموں آپ دیکھنا الیکشن ہوئے تو خان کلین سویپ کرے گا (ہمارے تیسرے بھانجے سید ارتضٰی حسن رضوی بس سیاسی اور مذہبی چیزہ ہی لیتے ہیں)۔
میں نے بھی چند اسلامی ٹچوں کے ساتھ انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ خلیل خان کے فاختائیں اڑانے کا موسم ہوا ہوا۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی اس نشست میں ایک بار تو میں نے "تپ" کر کہہ دیا، پیارے بھانجو لیڈروں کو پیغمبر سمجھنے کی غلطی نہ کرو یہ گوشت پوست اور ہڈیوں کے آدمی ہی ہیں۔ ابھی تو انسانیت بہت فاصلے پر ہے اور کج تمہارے پیشوا کے بہت زیادہ ہیں۔
اس پر بولے وہ کج اس کا ذاتی معاملہ ہیں۔ مجھے دریافت کرنا پڑا یہ ذاتی معاملات کی رعایت دوسروں کے لئے کیوں نہیں؟
میں اکثر کہتا لکھتا ہوں کہ قدیم پپلیوں (پیپلزپارٹی) کے جن خاندانوں کی نئی نسل عمران خان کی حامی ہے ان کی گفتگو اور عقیدت ہمیں سمجھاتے ہیں بنی گالہ بھی فرقوں کی برسات میں ایک نیا فرقہ ہے لیکن دوسری سیاسی جماعتیں بھی تو فرقوں کی صورت ہی لے چکیں پھر انصافیوں سے شکوہ کیسا؟