Sazishon Aur Ilzamat Ke Dangal
سازشوں اور الزامات کے "دنگل"
الزامات کے اس کھیل میں صرف عمران خان اور ان کے حامیوں کو ہی یہ دائمی حق حاصل نہیں کے جسے چاہیں منہ بھر کے غدار قرار دیں اور رجیم چینج کی امریکی سازش کا ڈھول پیٹتے رہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ خان نے اپنی دیانتدارانہ سیاست، اصول پسندی اور لیڈروں کے خلاف جہاد کے تین نکات کا بھانڈہ خود یہ کہہ کر پھوڑدیا کہ "ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی کرپشن کہانیاں مجھے ایجنسیوں نے سنائیں، وہی مجھے فائلیں دیکھاتے تھے"۔
سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا عام شخص بھی ان کے اس اقرار بیان کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے۔ کڑوا سچ یہی ہے کہ انہیں (عمران خان کو) ایجنسیوں کی حاضر و سابق شخصیات نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا"۔
سکیورٹی اسٹیٹ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ بعض ریاستی محکموں کے "سابق و حاضر" خود کو "ناخدا" سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں چار بار "ناخدا" خود اقتدار پر قابض ہوئے اور جب نہیں ہوئے تو پتلی تماشے لگوائے رکھے، بہت سارے ان ممالک کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو سکیورٹی اسٹیٹ ہیں لیکن اس کی ضرورت نہیں۔ ہمارے ہاں بھی اتنی مثالیں موجود ہیں کہ ان پر دفتر تحریر کئے جاسکتے ہیں۔
ایجنسیوں کی فراہم کردہ معلومات کے حوالے سے جناب عمران خان کے حالیہ اعترافی بیان سے ان قوتوں اور افراد کی رائے کو تقویت ملی کہ بعض طبقات نے اپنے "تام جھام" کے تحفظ کے لئے ہمیشہ سیاستدانوں کو نشانہ بنوایا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اکتوبر 2011ء کے بعد سے اس ملک میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ 2013ء کے انتخابی عمل میں کھیل بساط بچھانے والوں (ان میں ملکی اور غیرملکی دونوں شامل ہیں) کی منشا کے مطابق آگے بڑھ رہا تھا مگر خان کے کرن تھاپر کو دیئے گئے انٹرویو نے مقامی اسٹیبلشمنٹ کو "مہرہ" تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔
آخری وقتوں کیا ہوا اسے سمجھنے کیلئے پولنگ والی شام سے کچھ بعد ہوئے میاں نوازشریف کے اس خطاب کو یاد کیجئے۔ ساڑھے نو بجے شب کے خطاب میں ووٹروں سے نہیں انتخابی مینجمنٹ کے "کاریگروں" سے دو تہائی اکثریت مانگی جاتی ہے۔ 2014ء کے 126دن والے دھرنے پر الزام لگاکہ یہ پاک چین تعلقات برباد کرنے یعنی سی پیک کے خلاف سازش کا حصہ تھا۔ پشاور اے پی ایس سانحہ کے بعد دھرنا لپیٹ دیا گیا۔ پھر کچھ آوازیں اٹھیں کہ دھرنا ختم کرانے کے لئے محفوظ راستہ فراہم کیا گیا ہے۔
ضروری نہیں ان دونوں الزامات کو درست مان لیا جائے لیکن چونکہ الزامات لگے اور اب یہ تاریخ کا حصہ ہیں اس لئے جب بھی عمران خان کی سیاسی اڑان پر گفتگو ہوگی تو باقی باتوں کے ساتھ ان دو الزامات کا بھی تذکرہ ہوگا۔
2013ء کے انتخابی عمل کے دوران غیرریاستی لشکر نے اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم کو انتخابی مہم اپنی ذمہ داری پر چلانے کی دھمکی دی۔ اس غیرریاستی لشکر کا 2014ء میں اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کو دیا گیا عمران خان کے حوالے سے انتباہ ملکی اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ عبدالستار ایدھی کے انٹرویو اور حکیم سعید مرحوم کی کتاب کے مندرجات بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔
لندن میں میئر کے انتخاب میں صادق خان کی بجائے اپنی سابقہ اہلیہ جمائما خان کے بھائی کی انتخابی مہم چلانا بھی تاریخ کا ریکارڈ ہے۔ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش کا نتیجہ بتاتے نہیں تھکتے بلکہ وہ اس پر اپنی انقلابی جدوجہد کے بیانیہ کی عمارت بھی تعمیر کرچکے اب یہی سودا فروخت ہورہا ہے۔
کیا کسی دن وہ امریکی صدر ٹرمپ سے اپنی اس ملاقات کی تفصیلات سے قوم کو آگاہ کرنے کی "جرات" کریں گے جس کے دو اڑھائی ہفتے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارتی ریاست کا حصہ بنالیا تھا؟
بھارتی وزیر خارجہ نے فروری یا مارچ 2019ء میں امریکی وزیر خارجہ کو کشمیر کے حوالے سے اپنی ترجیحات سے آگاہ کرتے ہوئے مدد کی درخواست کی تھی۔
جولائی 2019ء میں عمران خان کا دورہ امریکہ ریاستی مہمان کے طور پر نہیں بلکہ تحریک انصاف کے پروگرام میں شرکت کے لئے تھا یہ وہی پروگرام ہے جس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ارشاد کیا تھا "میں اب پاکستان واپس جاکر جیلوں میں بند نوازشریف وغیرہ سے ایئرکنڈیشنوں کی سہولت واپس لے لوں گا"۔
اگر وہ تھوڑاسا دماغ پر زور دیں تو انہیں یاد آجائے گا کہ انہی دنوں ایک اور صاحب سٹیٹ گیسٹ کے طور پر امریکہ کے دورہ پر تھے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اگست 2019ء کا بھارتی اقدام امریکہ کی معرفت حاصل کی گئی پاکستانی رضامندی کا حصہ ہے۔ کچھ ستمگر ایک عدد ایکسٹنشن کو بھی اس سے جوڑتے ہیں۔ اس حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کا کبھی جواب نہیں ملا۔
آجکل خان صاحب "سچ سچ" بولنے کی راہ پر گامزن بلکہ جہاد کررہے ہیں تو ایک سچا مجاہد وہی ہوتا ہے جو خطرات اور نتائج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پورا سچ عوام کے سامنے رکھ دے۔
خان صاحب رجیم چینج کی کہانی اٹھتے بیٹھتے سناتے ہیں۔ ان کے کارکنان اور ہمدرد اس پر یقین بھی رکھتے ہیں کیا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ 2018ء کی انتخابی مینجمنٹ سے انہیں اقتدار میں لانے والوں کے پیچھے امریکہ، بھارت، اسرائیل اور برطانیہ کھڑے تھے ان کے الزام کو بھی درست مان لیا جائے؟ مزید وضاحت کے ساتھ عرض کردوں کہ الزامات دو طرفہ ہیں۔ ویسے ان دو طرفہ الزامات کی تحقیقات کے لئے کمیشن بننا چاہیے۔
اب بھی بعض طبقات اور سیاسی جماعتیں یہ کہتی ہیں کہ عمران خان کو ملک کی پرواہ نہیں بس اپنے حکمران بننے سے دلچسپی ہے اور اس کے لئے وہ کسی حد تک جاسکتے ہیں۔ اس الزام کو تائید بہت ساری باتوں سے ملتی ہے اس وقت ایک مثال ان کے دور کے ایک وزیر خزانہ شوکت ترین کی دو عدد آڈیوز ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہیں ان آڈیوز میں شوکت ترین خیبر پختونخوا کے اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو آئی ایم ایف کے حوالے سے جو ہدایات دے رہے ہیں ان سے بھی اس الزام کی تائید ہوتی ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت اقتدار کے لئے کس "حد" تک بھی جاسکتی ہے۔
یہاں ایک اور بات بھی عرض کی جاسکتی ہے سیلاب میں سندھ میں ہونے والی تباہی کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے تو خیبر پختونخو، بلوچستان اور صوبہ پنجاب کے سرائیکی علاقوں میں سیلاب سے ہوئی تباہیوں کی ذمہ دار یہ تین صوبائی حکومتیں کیوں نہیں؟
سوات کالام میں جو ناجائز تجاوزات سیلابی پانی بہالے گیا ان تجاوزات کی تعمیر کے حوالے سے مالاکنڈ ڈویژن کے ایک سابق کمشنر، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ اور سابق وفاقی وزیر مراد سعید پر سنگین الزامات لگ رہے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ چند صحافیوں کو کالام و بحرین وغیرہ میں عطا کردہ پلاٹوں کے حوالے سے بھی زیربحث ہے۔
باردیگر عرض کردوں ان دو طرفہ الزامات سے پیدا ہوئی سیاسی ابتری کا تجزیہ کرنے والوں میں سے زیادہ تر جناب عمران خان کی جانب سے مخالفین پر لگائے گئے الزامات کا ذکر کرتے ہیں۔ اصولی طور پر دوسرے فریق یا فریقوں کے الزامات کا بھی حوالہ دیا جانا چاہیے جو وہ عمران خان پر لگاتے ہیں۔
مثلاً لوگ خان صاحب اور ان کی قابل احترام ہمیشرگان کی مالی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں اور یہ سوال صرف اس ایک بات پر اٹھایا جاتا ہے جو خود خان صاحب کہتے رہے کہ "کینسر ہپستال بنانے کا خیال مجھے اس لئے آیا کہ میرے پاس اپنی کیسنر کی مریضہ والدہ کے علاج کے لئے پیسے نہیں تھے"۔
ایک بار پھر یہ عرض کردوں کہ الزاماتی سیاست کرنے والے یہ نہ بھولا کریں کہ جواب آں غزل کا حق بھی محفوظ ہوتا ہے۔ خان صاحب جب دوسروں پر الزامات لگاتے ہیں تو انہیں خود پر لگنے والے الزامات کا بھی اسی طرح جواب دینا چاہیے جیسا جواب وہ اپنے مخالفین سے چاہتے ہیں۔