Sahafat Ke Naam Par Munshi Geeri
صحافت کے نام پر منشی گیری
کبھی کبھی بہت حیرانی ہوتی ہے ان دوستوں پر جن کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ نہ صرف سینئر بلکہ تحقیقاتی صحافی ہیں۔ یہ دعویٰ ویسے کوئی بری بات بھی نہیں۔ ہم نے رواں صدی کے پہلے عشرے کے ساتویں آٹھویں برس میں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے تجزیہ نگاری کے میدان میں قدم رنجہ فرماتے "جماندرو" سینئر تجزیہ کار بھی دیکھے سنے۔
تب ایک دن یاد آیا کہ لاہور کی ایک ثقافتی تقریب کے شرکا کی اخبار میں شائع ہونے والی تصاویر میں مرحوم ریاض بٹالوی اور استاد مکرم سید عالی رضوی مرحوم کی تصاویر بھی شامل تھیں۔ کیپشن میں ریاض بٹالوی کے نام کے ساتھ سینئر صحافی لکھا گیا جبکہ سید عالی رضوی کا صرف اسم گرامی۔
اس سپہر بٹالوی صاحب نے نیوز سیکشن میں ہنگامہ کھڑا کردیا ان کا موقف تھا کہ عالی رضوی جیسی شخصیت کی تصویر بھی موجود تھی پھر ان (میرے) کے نام کے ساتھ سینئر صحافی کیوں لکھا گیا۔ بٹالوی صاحب کے خیال میں فقط مراتب اخبار نویس کے سماجی شعور اور ادارہ جاتی تربیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
چھوڑیے یہ پرانے لوگ تھے قدیم سماجی روایات کے امین اب تو "ہڑ" آیا ہوا ہے۔ شکوہ فضول ہے۔ایک وقت تھا جب عامل صحافی (قلم مزدور) اپنے کام اور تجربہ کی بنیاد پر سینئر اور بڑے صحافی شمار ہوتے تھے۔ اب ادارے بڑے شمار ہوتے ہیں اور اداروں کے "بڑے" ہونے کے حساب سے ان میں کام کرنے والوں کی درجہ بندی ہوتی ہے۔تب کہا جاتا تھا کہ ادارے انسان بناتے ہیں اس لئے انسان بڑے ہوتے ہیں۔ ان برسوں کے صحافتی اداروں کے سینئر بزرگ خودبخود استاد کے درجہ پر فائز ہوجاتے صحافت کے کوچہ میں قدم رکھنے والی نئی نسل کی رہنمائی اور تصحیح کو وہ خدائی ذمہ داری سمجھتے تھے۔
اب حساب کرکے دیکھ لیجئے پچھلی صدی کی آخری چار دہائیوں میں صحافت کو کیسے کیسے نابغہ روزگار ملے۔ منہاج برنا سے شروع کیجئے، نثار عثمانی مرحوم تک، سید عالی رضوی سے نظام صدیقی تھی۔ محمد علی صدیقی سے عبدالواحد یوسفزئی تک۔ درجنوں سینکڑوں نام گنوائے جاسکتے ہیں۔آپ دائیں بازو کے صحافیوں کی بھی ایک فہرست مرتب کرسکتے ہیں۔ یہ دائیں بائیں بازو کے صحافی اپنی اپنی فہم میں کسی نہ کسی جماعت کے حامی ضرور تھے۔ اپنی خبروں اور تحاریر میں نرم گوشے کا مظاہرہ بھی کرتے تھے لیکن مالکان اور ریاست کے پھڈوں میں ت توپچی کا کردار ادا نہیں کرتے تھے۔
یہ مرض 1980ء کی دہائی میں کوچہ صحافت میں داخل ہوا اور پھر پھیلتا چلا گیا۔ پہلے پہل صحافی محب ہوئے، پھر میڈیا منیجر بنے اور بالآخر منشی ہوگئے۔ کچھ نے ریاستی اداروں کے دامن میں پناہ لی اور حب الوطنی کا منجن بیچنے لگے۔ کچھ نے اپنے مالکان کے ایجنڈے کو سنبھالا اور کشتوں کے پشتے لگانے شروع کردیئے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں اہل صحافت میں تقسیم گہری ہوئی۔ تنظیموں میں ٹوٹ پھوٹ بھی اسی دور کی مہربانی ہے۔
1990ء کی دہائی کے ساتھ نظریاتی صحافت کی جگہ کمرشل ازم اور میڈیا منیجروں نے لے لی۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ قدریں تبدیل ہوتی چلی گئیں۔کبھی نظریاتی بنیادوں پر کسی جماعت اور شخصیت کی تحسیین ہوتی تھی پھر میڈیا منیجری ہونے لگی اور اب تو پورے پورے ادارے حق خدمت بجالاتے ہیں۔
مالکان کی "ہوائوں " کا رخ دیکھ کر ملازمین نے وفاداریاں نبھانے کو صحافت کا نام دے دیا۔ اب اگر نظریاتی فہم کی بنیاد پر خبروتجزیہ تلاش کریں تو بہت مشکل پیش آئے گی وجہ یہی ہے کہ ہزاروں اہل صحافت میں چند ہی ہوں گے جن پر نظریاتی ہونے کی پھبتی کسی جاسکے۔
درمیان کے کچھ برسوں میں ہمارے ریاستی اداروں نے تحقیقاتی صحافیوں کا پورا لشکر تیار کیا۔ عجب کرپشن کی غضب کہانیاں فراہم کیں۔ سازی تھیوریوں پر پلنے والے سماج میں ان کہانیوں کو چار چاند لگ گئے۔یہ الگ بات ہے کہ فراہم کردہ کہانیوں پر تجزیہ اٹھاتی نسل سوال پر ناراض ہوتی ہے اور تنقید پر گلے پڑنے کو آمادہ، حالانکہ انہیں حوصلے سے کام لینا چاہیے۔
ایک المیہ اور ہے وہ یہ کہ اس پوری نسل نے (یہ 1990ء کی دہائی کے آخری برسوں یا پچھلے دو عشروں سے کوچہ صحافت میں اتری ہے) صرف سیاستدانوں کو منہ بھر کے کوسنا سیکھا ہے۔کیا مجال کہ کسی "اور" کی کرپشن پر دو لفظ بھی پھوٹ پائیں۔ مثال کے طور پر ایان علی نامی کال گرل کے اصل تعلق اور واسطوں کے ساتھ کاروبار سے سبھی آگاہ تھے لیکن حکم ہوا کہ ایان علی کا ملبہ آصف زرداری پر ڈال دو، تعمیلِ حکم میں سبھی ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے دیکھائی دیئے یہاں تک کہ ایک منشی نے تو "طبی رپورٹ" کی بنیاد پر "خصوصی" دعویٰ بھی کردیا۔
ایک میڈیا گروپ زرداری کی اہلیہ اور بچہ بھی تلاش کرکے لے آیا۔ دونوں دعوے سفید جھوٹ ثابت ہوئے مگر رتی برابر شرم مالکان کو آئی نہ ملازمین کو، وجہ یہی تھی کہ ایان علی کا گارڈ فادر سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کا ٹھیکیدار بھائی تھا۔اس کی اصلیت حب الوطنی کے جذبے کے تحت چھپائی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صحافت پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھنا شروع ہوگیا مگر صحافت ہے کہاں؟
کمرشل ازم ہے سیدھا سیدھا کاروبار، مالکان کے مفادات ہیں منشی گیری سے مالک کے ساتھ اپنا پیٹ بھرنے کو صحافت کہا جارہا ہے۔ کبھی قومی صحافت ہوتی تھی (قومی سے مراد ملکی سطح کی ہے) اب علاقائی صحافت ہے قومی اخبارات کہلانے والے اخبارات کے صفحات اٹھاکر دیکھ لیجئے، خیر چھوڑیئے یہ الگ موضوع ہے۔ کمرشل ازم سے جو نقصان ہوا وہ یہ ہے کہ صحافت پیچھے رہ گئی مالکان کے مفادات مقدم ہوگئے۔
اب جو مالک جس جماعت کا ہمدرد ہے وہی جماعت آخری امید ہے۔ زیادہ تر تو حب الوطنی کا خوانچہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ کچھ لندن سے انقلاب لانے کے لئے راستہ ہموار کررہے ہیں۔اساتذہ کہتے تھے کہ اگر تم کسی شخص یا جماعت کو پسند نہ بھی کرو تو تجزیہ کرتے وقت توازن کا مظاہرہ لازمی ہے۔ اب نہ اساتذہ رہے نہ ویسے شاگرد، جو مال دستیاب ہے اس کی اکثریت کا پاکستان جی ٹی روڈ سے شروع ہوکر جی ٹی روڈ پر ہی اور کچھ کا آبپارہ شریف پر تمام ہوجاتا ہے۔
اس صورتحال پر جب سندھی، سرائیکی، پشتون، بلوچ سوال اٹھاتے ہیں تو کھٹ سے حب الوطنی کی توپوں سے چاند ماری شروع ہوجاتی ہے۔ایک قسم اہل صحافت کی اور بھی ہے ان کا مسئلہ یا مجبوری یہ ہے کہ ان کے ادارے کے مالکان (زندہ و مرحوم دونوں) کی بھٹوز اور پیپلزپارٹی سے ذاتی، نسلی اور چند دیگر باتوں کی وجہ سے دشمنی ہے۔مالک کی خوشنودی کے لئے پچھلے چالیس برسوں سے اس میڈیا ہائوس کے دوست پیپلزپارٹی کی تدفین میں مصروف ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے ملازم کبھی نگران وزیر اطلاعات اور کبھی نگران وزیراعلیٰ تک بن جاتے ہیں ایک مرحوم جو بعد میں نگران وزیر اطلاعات بنے، چین میں سفیر بننے کے خواہش مند تھے۔ خواہش پوری نہ ہوئی تو جو کچھ انہوں نے لکھا وہ ریکارڈ پر ہے۔
پیپلزپارٹی کی مخالفت کفر بالکل نہیں اسی طرح جاتی امرا کی چوبداری بھی کلِ ایمان نہیں ہے۔ شخصیات اور سیاسی جماعتوں میں خوبیاں خامیاں ہوتی ہیں ان پر بات ہونی چاہیے۔معاف کیجئے گا بات کچھ زیادہ دور نکل گئی مجھے فقط یہ عرض کرنا تھا کہ پچھلے چند دنوں سے ایک خاص خبر کو لے کر دھمال ڈالنے والے تھوڑی سی اخلاقی جرات کرکے شاہد خاقان عباسی کے اس ڈنر کا بھی ذکر کریں جو چند دن قبل راولپنڈی میں ہوایا شہباز شریف کی حالیہ دو ملاقاتوں کا ذکر ہی کردیں۔
ہمت ہو تو یہ بھی بتادیں کہ لندن میں ملک ریاض کی خریدی ہوئی پراپرٹی کے معاملے میں کس سیاسی شخصیت کے فرزند کے معاملات الجھے ہوئے ہیں اور ان معاملات کا اثر اس شخصیت کے ویزے پر پڑتا دیکھائی دے رہا ہے؟