Sada Sada Batein
سادہ سادہ باتیں
تحریر نویس کی تکالیف اور تحریک انصاف پر تنقید پر پریشان قارئین کرام اور میڈیائی مجاہدین سے دست بدستہ ایک سوال ہے۔ کیا کبھی انہوں نے تحریک انصاف کی محبت کے سمندر میں غوطہ زن صحافیوں سے بھی یہ کہا ہے کہ صحافی کو غیرجانبدار، یعنی نیوٹرل (نقد ترجمہ جس کا جانور خود عمران خان نے کیا) ہونا چاہیے؟
اچھا اگر وہ اپنے حامیوں اور بنی گالہ گیت مالا لکھنے والوں کو ہی صرف سچا، محب وطن، بااصول اور بہادر صحافی سمجھتے ہیں تو یہ بھی کوئی بری بات ہرگز نہیں۔
یہ صرف ان کی ذہنی اور فکری حالت نہیں دستیاب سیاسی اور مذہبی (یعنی مسلکی) جماعتوں کے ہمدرد ان کا بھی یہی رویہ ہے۔ جو لکھنے والے ان کی سوچ کےقریب ہوتے ہیں وہی اچھے اور اصول پسند صحافی ہوتے ہیں باقی کے سارے بکائو مال۔
بکائو مال تک کی پھبتیاں مختلف الخیال صحافیوں پر عشروں سے کسی جاتی ہیں۔ ہماری بنی گالوی پیاروں نے نئی نئی اصطلاحات اور جملے ایجاد کئے ہیں۔
پچھلے کچھ عرصہ سے پتہ نہیں یہ کیوں لگتا ہے کہ پاکستان ایک بڑے شاہی قلعہ (ماضی میں لاہور کے شاہی قلعہ میں قائم بوچڑ خانے) جیسا بن گیاہے۔ اور پیارے پیارے انصافی اس شاہی قلعہ کے تفتیشی اہلکار ہیں۔
یہ مماثلت اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ جب ہم جنرل ضیاء الحق کے دور میں لاہور کے شاہی قلعہ کی مہمان نوازی سے مستفید ہوئے تھے۔ اس وقت ہماری حیات عزیز 22سال گزار کر 23ویں سال میں چہل قدمی کررہی تھی۔
22برسوں کے دوران گو لگ بھگ پورا پاکستان گھوم لئے تھے اور مقیم بھی کراچی میں تھے جہاں پورا پاکستان بستا ہے لیکن جو "نوادرات" جیسی گالیاں ہم نے شاہی قلعہ کے تفتیشیوں کے دہن مبارک سے جھڑتی دیکھیں ایسی گالیوں نے اس سے قبل کبھی سماعتوں پر دستک نہیں دی تھی۔
کاش اخلاقیات اور صحافتی اقدار اجازت دیتے آپ کو "نوادرات" جیسی ان گالیوں کا آسان اردو ترجمہ کرکے پڑھاپاتا۔ یہاں سے آپ اندازہ لگالیجئے کہ وہ کیسی گالیاں ہوں گی جن کا آسان اردو ترجمہ بھی نہیں لکھا جاسکتا۔ بس یہی صورتحال سوشل میڈیا کی ٹیوٹر نام کی سائٹ پر ہوتی ہے۔
بڑے بڑے علامے اُلامے بنے دیکھائی دیتے ہیں۔ سینکڑوں پی ایچ ڈی کچرات ملیں گے۔ کسی دن وقت نکالیں اور صرف سلیم صافی، حامد میر، سیدہ عاصمہ شیرازی، غریدہ فاروقی، سید طلعت حسین (نمونے کے طور پر چند کے نام لکھے ہیں فہرست طویل ہے) کے ٹیوٹرز اکائونٹس کا دورہ پھڑکائیں اگر آپ کے 27طبق روشن اور ایمان کا حقہ قیامت تک کے لئے تازہ نہ ہوگیا تو پھر کہیئے گا۔
اسی طرح تحریک انصاف کے حامی صحافیوں، یوٹیوبرز اور اینکروں کی وال پر بھی حامیوں اور مخالفوں کے درمیان زبان دانی کے مقابلے دیکھے جاسکتے ہیں۔
مکرر عرض ہے ہر شخص یہ توقع کرتا ہے کہ اس کی پسندیدہ جماعت اور لیڈر کی تعریف کی جائے اور مخالفین کو رگڑا لگایا جائے۔ ہمارے پیپلزپارٹی کے دوست سلیم صافی اور حامد میر کے علاوہ چند مخصوص یوٹیوبرز کو کیا کیا نہیں کہتے۔
اس سے تو پچھلی صدی کی آخری چار دہائیاں اچھی تھیں خصوصاً چھٹی۔ ساتویں اور آٹھویں صحافت اور سیاست میں زیادہ سے زیادہ یہودوہنود کے ایجنٹ ہوتے تھے یا رجعت پسند۔ بہت ہوتا تھا تو صالحین کے حامی اسلام پسند صحافی اور کارکنان ترقی پسند صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو انجمن عاشقان "واوڈکا" قرار دیتے تھے جواباً ان پر ڈالر خور کی پھبتی کسی جاتی تھی۔
کیا مجال کے ایک دوسرے کے حامی مخالف اخلاقیات کے کپڑے اتارنے پر اتر آئیں۔
ہاں 1970ء کی دہائی میں جہاں بھٹو صاحب نے اپنے مخالفین کے نام بگاڑے۔ ڈبل بیرل خان کہا، آلو خان، وہیں جماعت اسلامی کے حامی صحافیوں اور دوسروں نے بھٹو صاحب کو گھاسی رام کہا لکھا۔ آہستہ آہستہ سستے جملے اچھالے جانے لگے۔ براہ راست گالم گلوچ بھٹو مخالف قومی اتحاد کی مشہور زمانہ تحریک سے شروع ہوئی۔
طرفین اپنے جلسوں اور جلوسوں میں ایک دوسرے کے بارے میں ایسے جملے استعمال کرتے تھے کہ کانوں سے دھواں نکلنے لگتا تھا۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف شروع ہوئی تحریک میں رنگ بازی کے لئے لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکائے گئے اس تحریک کو تحریک نظام مصطفیؐ کا نام دیا گیا۔
یہ وہی تحریک ہے جس کے دوران لاہور پولیس اور ایف ایس ایف کی خواتین اہلکاروں کو ہمارے "دیندار بھائیوں " نے "بیسوائیں " (رنڈیاں) قرار دیا اور اس پر رتی برابر شرم بھی محسوس نہیں کی تھی۔
قومی اتحاد والوں کے سستے نعروں کے جواب میں اس وقت جیالوں نے بھی چند نعرے ایجاد کئے تھے۔ یہ جوابی نعرے لاہور میں ملک غلام مصطفی کھر کی قیادت میں نکلنے والے جلوس میں پہلی بار لگے۔ تب احساس ہوا کہ معاملات بگڑ جائیں گے۔
(یہ و ہی جلوس ہے جس پر 5جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگانے والے جنرل ضیاء الحق نے الزام لگایا تھا کہ (پیپلزپارٹی کے مسلح جلوس سے ملک میں خانہ جنگی ک خطرہ پیدا ہوگیا تھا)
ان دنوں علامہ شاہ احمد نورانی نے مشترکہ دوست کے توسط سے بھٹو صاحب کو کہلوایا کہ جلوسوں میں سوقیانہ نعرے بازی پی این اے کی قیادت کی مرضی سے نہیں ہورہی۔ بھٹو صاحب نے پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کو ہدایت کی کہ کسی مخالف لیڈر کے خاندان کو زبان دانی کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
اس پر پی پی پی کے کچھ رہنمائوں نے وہ اخبارات اور جرائد بھٹو صاحب کے سامنے رکھے جن میں بھٹو، ان کی اہلیہ اور مرحومہ والدہ کے لئے غلاظت بھری ہوئی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں ان کے اتحادی پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان کے خلاف جو کہتے لکھتے تھے وہ تاریخ کا حصہ ہے اور یہ بھی تاریخ کا حصہ کہ پھانسی پاچکنے والے بھٹو کے جسم کی تصاویر۔
"مسلمانی کی شناخت و تصدیق کے لئے بنوائی گئیں"۔
اس سے اندازہ لگالیجئے پروپیگنڈے کا زہر کس تیزی سے پھیلتا ہے۔
معاف کیجئے بات دور بلکہ بہت زیادہ دور نکل گئی۔ اب اگر جنرل حمید گل کے ٹیسٹ ٹیوب بے بی اسلامی جمہوری اتحاد اور پھر مسلم لیگ (ن) کے اٹھائے طوفان ہائے بدتمیزی کا ذکر نہ کروں تو یہ تاریخ سے ناانصافی ہوگی۔ انصافی عزیز اٹھتے بیٹھتے اس دور اور بدزبانیوں کو اپنی ڈھال قرار دیتے ہیں۔
زیادہ تر بلاول کے لئے ایک ہی بات کہتے ہیں "اس بے شرم کو دیکھو جنہوں نے اس کی والدہ کی کردار کشی کی یہ ان کا اتحادی بن گیا"۔
بظاہر اس بات میں بڑی کشش ہے لیکن یہ کہتے ہوئے انصافی خواتین و حضرات (ان کی اکثریت سابق جیالے خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے) یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر سیاست کے نام پر دشنام طرازی کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرلیا جاتا تو شاید آج بھی ملک پر جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء مسلط ہوتا یا پھر ابھی تک پرویز مشرف ایوان صدر میں بیٹھا ہوتا۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں پپلزپارٹی کو اپنی بدترین مخالف(ن) لیگ کے ساتھ اے آر ڈی میں بٹھایا۔ اپنے شوہر کے ہمراہ جدہ کے سرور پیلس میں شریف خاندان سے ملنے گئیں۔ (ن) لیگ سے میثاق جمہوریت کیا۔
بہت پہلے بھٹو کی پھانسی کے سہولت کاروں کو بیگم بھٹو نے ایم آرڈی میں ساتھ بٹھایا۔
یہ چند فیصلے آپ انہیں جو مرضی کہیں حقیقت میں اس بات کا عملی مظاہرہ ہیں کہ اگر سیاست میں درگزر سے کام نہ لیا جائے تو سیاسی عمل اور دونوں نظام بند گلی میں پھنس جاتے۔ یہی بات انصافیوں کو سمجھنا ہوگی، خیر ابھی وہ جوبن پر ہیں اور جوان بھی اس لئے نہیں سمجھیں گے انہیں اپنے سوا سب چور، بداخلاق اور غدار لگتے ہیں۔
اپنی قیادت پر لگنے والے الزام من گھڑت اور مخالفین پر لگنے والے الزامات مقدس لگتے ہیں۔ لیکن وقت سب کو بہت کچھ سمجھادیتا ہے۔