Rehmat Shah Afridi, Kuch Tareekh Chand Talkh Yaadein (1)
رحمت شاہ آفریدی، کچھ تاریخ چند تلخ یادیں (1)
رحمت شاہ آفریدی بھی چل بسے۔ انگریزی اخبار "دی فرنٹیئر پوسٹ" کے بانی و چیف ایڈیٹر تھے۔ "دی فرنٹیئر پوسٹ" نے اشاعت کے ساتھ ہی قارین کے ایک بڑے طبقے کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ 1990ء کی دہائی کے آخری برسوں میں انہوں نے پشاور سے ہی اردو روزنامہ "میدان" کی اشاعت کا آغاز کیا مختصر عرصہ میں"میدان" نے خیبر پختونخوا کے طول و عرض کے قارئین میں اپنا مقام بنالیا۔
سال 1999ء میں رحمت شاہ آفریدی کی گاڑی کی ڈگی سے کئی من منشیات "برآمد" کرلی گئی اور وہ منشیات کے سمگلر ٹھہرائے گئے۔ اس معاملے کو ان کی اور ان کے میڈیا ہائوس کے دونوں اخبارات "دی فرنٹیئر پوسٹ" اور روزنامہ "میدان" کی ادارتی پالیسی کے محترمہ بینظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کی جانب جھکائو کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے بہت سارے "باخبری" آج بھی نوازشریف حکومت کے انتقامی اقدامات سے جوڑ کر دیکھتے اور پیش کرتے ہیں۔
ان "باخبریوں" کا خیال ہے کہ رحمت شاہ آفریدی اور ان کے ادارے پر عتاب ٹوٹنے کی وجہ یہی ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کے حامی تھے۔ اس پر دو آراء نہیں کہ رحمت شاہ آفریدی پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے اس کی دو وجوہات تھیں۔۔
پہلی یہ کہ ان کے خاندان کے محترمہ بینظیر بھٹو کے سسرالی خاندان سے گہرے مراسم تھے۔
دوسری یہ کہ محترمہ بینظیر بھٹہ انہیں ایک قابل اعتماد شخصیت کے طور پر احترام دیتی تھیں۔ پیپلزپارٹی کے لئے نرم ادارتی پالیسی کی وجہ سے مشکلات ضرور پیدا ہوئیں مگر منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتاری اور عدالتی سزا کے پیچھے یکسر دوسرے معاملات تھے۔
ان معاملات کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ رحمت شاہ آفریدی بھی خیبر پختونخوا کے ان دوسرے درجن ڈیڑھ درجن بااثر افراد میں شامل تھے جو بین الاقوامی منڈی میں اسلحہ و گولہ بارود فروخت کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے تھے۔ یہ ایک جائز اور قانونی ضابطوں کے اندر رہ کر کیا جانے والا کاروبار تھا۔ اس کاروبار کے پاکستانی بروکرز نے افغانستان میں لڑی جانے والی سوویت امریکہ جنگ میں افغان جہادیوں کے لئے اسلحہ کی خریداری اور فراہمی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا۔
ظاہر ہے کہ یہ کاروبار اس وقت کی حکومت (تب ملک پر جنرل ضیاء کی قیادت میں تیسری فوجی حکومت مسلط تھی) کی مرضی و منشا کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔
افغان جہادیوں کو اسلحہ وغیرہ فراہم کرانے میں کردار ادا کرنے والوں نے اس جہادی دور میں خوب ڈالر کمائے۔ تب یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ان اسلحہ ڈیلروں میں سے ہر ایک کا حصہ دار ایک مارشل لائی افسر بھی تھا۔
ثانیاً ان ڈیلروں اور ان کے سہولت کاروں پر انہی دنوں یہ الزام بھی لگا کہ وہ افغان جہادیوں کو اسلحہ کی فراہمی کے بدلے منشیات بھی لے لیتے ہیں اور یہ عالمی منڈی میں فروخت ہوتی ہیں۔ نیز یہ کہ اس دھندے میں خود امریکی سی آئی اے کے وہ افسران بھی شامل تھے جو جہاد پروری کے امور کی انجام دہی کے لئے پاکستان میں مقیم تھے۔
رحمت شاہ آفریدی سال 1999ء میں منشیات کی مبینہ برآمدگی پر جب گرفتار ہوئے تو اس سے قبل ان کی ادارت میں شائع ہونے والے انگریزی اخبار "دی فرنٹیئر پوسٹ" نے دو کام کئے۔
اولاً ادارتی صفحہ پر ایک کارٹون شائع ہوا کارٹون میں موجود تمام افراد آرمی چیف و نوازشریف اور دیگر نے فوجی شرٹ کے نیچے دھوتیاں پہنی ہوئی تھیں ان کے گلے میں ڈھول تھے جنہیں وہ بجاتے ہوئے بھنگڑا ڈال رہے تھے۔
دوسرا یہ کہ "دی فرنٹیئر پوسٹ" کے صفحات پر ان سابق فوجی افسروں کی ایک فہرست شائع کی گئی جو امریکہ اور دوسرے ممالک میں جائیدادوں کے مالک تھے۔ ان میں سے زیادہ تر افسر وہ تھے جن کا افغان جہاد میں کسی نہ کسی طرح کوئی کردار رہا تھا۔
یہ دونوں کام کیوں ہوئے۔ بلنڈر ہوا یا غصہ میں یہ کام؟
اسے سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ جب جنرل آصف نواز آرمی چیف تھے تو رحمت شاہ آفریدی کو یوکرائن سے ٹینکوں کی خریداری کا کام دیا گیا۔ جنرل آصف نواز اچانک دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے انکی جگہ جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف بنے۔ کہا جاتا ہے کہ جہانگیر کرامت کے اپنے برادر نسبتی عامر لودھی بھی بین الاقوامی منڈی سے اسلحہ و دفاعی سازوسامان کی خریداری میں معاونت کرتے تھے۔
جہانگیر کرامت نے آرمی چیف بنتے ہی یوکرائن والی ڈیل رحمت شاہ آفریدی کی بجائے عامر لودھی کو دے دی۔ اس فیصلے سے رحمت شاہ آفریدی کو بھاری مالی نقصان پہنچا جس پر وہ غصہ میں آگئے۔
نصف وردی میں بھنگڑے والا کارٹون اور بیرون ملک جائیدادیں رکھنے والے سابق فوجی افسروں کی فہرست کی "دی فرنٹیئر پوسٹ" میں اشاعت اصل میں جواب آں غزل کا پروگرام تھا۔
ان کا خیال تھا کہ جس شخص کے سینے میں درجنوں راز موجود ہوں اسے چھیڑنے سے اجتناب برتا جائے گا لیکن ان کے اس اقدام سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ شدید برہم ہوگئی دوسری جانب اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف رحمت شاہ آفریدی کے لئے بہت برسوں سے دل میں کینہ پالے ہوئے تھے، اس کینے اور غصے کی وجہ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ سال 1989ء میں مکہ مکرمہ میں اسامہ بن لادن سے میاں نوازشریف کی ملاقات کا اہتمام انہوں نے کیا تھا۔
یہ وہی مشہور زمانہ بلکہ بدنام زمانہ ملاقات ہے جس میں میاں نوازشریف نے محترمہ بینظیر بھٹو کی غیر اسلامی حکومت کے خاتمے کیلئے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے بن لادن سے مبلغ ایک ارب روپیہ لیا تھا۔
کارٹون، فہرست اور نواز اسامہ ملاقات اور ایک ارب روپیہ لینے کا قصہ یہ تین باتیں تھیں جن کی وجہ سے نوازشریف حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے مشترکہ حکمت عملی اپنائی اور پھررحمت شاہ آفریدی کی بی ایم ڈبلیو کی ڈگی سے غالباً 7 من منشیات لاہور کے ایک ہوٹل کے پورچ میں برآمد کرلی گئی۔
وہ گرفتار ہوئے سزا ہوئی اور پھر 9 سال بعد انہیں صدر مملکت بننے والے آصف علی زرداری نے پیرول پر رہا کروایا۔
رحمت شاہ آفریدی گزشتہ سے پیوستہ روز پشاور میں وفات پاگئے۔ انہوں نے دو شادیاں کیں پہلی خاندان میں اور دوسری غالباً 2017ء یا 2018ء میں چترال سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان میں۔ رحمت شاہ آفریدی صحافتی زندگی کے آغاز پر جتنے بااصول کارکن دوست اور مرنجا مرنج انسان اور میڈیا ہائوس مالک تھے اپنی زندگی کے دوسرے دور میں جو جیل سے پیرول پر رہائی کے بعد شروع ہوا یکسر الٹ کردار کے حامل دیکھائی دیئے انہوں نے 2015ء میں لاہور سے "دی فرنٹیئر پوسٹ" کی معطل اشاعت کا پھر سے آغاز کیا اور ساتھ ہی لاہور سے روزنامہ "میدان" کی اشاعت کا منصوبہ بنایا۔
ایک دوست کے طور پر انہوں نے ٹیلفیون پر ملتان چھوڑ کر لاہور واپس آنے اور "میدان" کی ادارت سنبھالنے کے لئے کہا۔ اس "نیک" مشورے میں عزیزم عقیل یوسفزئی اور استاد مکرم اکرم شیخ بھی شامل تھے۔
مرحوم احمد سلیم پر گزشتہ روز لکھے گئے کالم میں عرض کیا تھا کہ احمد سلیم وہ واحد دوست تھے جنہوں نے مجھے "دی فرنٹیئر پوسٹ" گروپ دوبارہ جوائن کرنے سے منع کیا تھا۔ اس کی وجہ پچھلا تجربہ تھا جو کہ بہت تلخ رہا جب میں پشاور میں روزنامہ "میدان" کی ادارت سے منسلک ہوا اور پھر جو مجھ سمیت دیگر کارکنوں پر بیتی اس کی یادیں آج بھی کڑواہٹ بھردیتی ہیں۔
2015ء میں جب دوبارہ فرنٹیئر پوسٹ گروپ جوائن کرنے کی دعوت اور دوستانہ حکم ملا تو میرا خیال تھا کہ 1999ء میں رحمت شاہ آفریدی کی گرفتاری کے بعد ان کے بچوں نے کارکنوں سے جو سلوک کیا اس کا ذمہ دار رحمت شاہ آفریدی کو قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن ادارہ جوائن کرنے کے بعد اگلے برسوں میں اور خصوصاً "دی فرنٹیئر پوسٹ" لاہور کا ایڈیٹر بنادیئے جانے کے بعد جو ہم پر اور کارکن ساتھیوں پر گزری وہ رنج بھی ایک طویل داستان ہے۔
اس داستان میں ہی کارکنوں کا معاملہ سپریم کورٹ میں جانے، وہاں چار رکنی کمیٹی قائم کرنے اور بعد کے معاملات ہیں۔ "دی فرنٹیئر پوسٹ" گروپ کے ساتھ گزرے دوسرے مرحلے کے یہ پانچ برس قیدوبند اور تشدد کی ان صعوبتوں سے بھی برے تھے جن کا سامنا جنرل ضیاء الحق کے دور میں کیا تھا۔
پانچ برسوں کے دوران کارکنوں پر جو بیتی اس کی یادیں اب بھی خون رلادیتی ہیں۔
ادارے کے مالک کے پاس کارکنوں کو دینے کے لئے پیسے نہیں، وعدے اور لارے تھے مگر اپنی ذاتی عیاشیوں اللوں تللوں کا ہر شام اہتمام کرلیا جاتا تھا۔
گزشتہ سے پیوستہ روز ان کی وفات کے بعد کچھ مشترکہ دوستوں کا کہنا تھا بس اب معاف کردو وہ وفات پاچکا ہے۔
ان دوستوں کو اچھا خاصا علم ہے کہ مرحوم کے ادارے میں ملازمت کے دنوں میں ہم روزانہ کی بنیاد پر جیتے اور مرتے تھے۔ ہمیں تو کسی نے معاف نہ کیا نہ ہمارے بچوں کی عزت نفس کا احساس۔
پھر ہم کیوں مرنے والے کو اپنا حق معاف کردیں؟ (جاری ہے)